دہشت گردی کی نئی لہر

ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درابن میں سکیورٹی فورسز پر حالیہ عسکریت پسندوں کا حملہ دہشت گردی کے مسلسل خطرے کی واضح یاد دہانی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق چھ دہشت گردوں نے درابن میں سکیورٹی فورس کی پوسٹ پر حملہ کیا لیکن سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے داخلے کی کوشش ناکام بنادی۔ اس کے بعد دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی کو چوکی سے ٹکرا دیا جس کے نتیجے میں ہونے والے دھماکوں سے عمارت گرگئی اور متعدد اموات ہوئیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے میں تمام چھ دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا گیا۔ دہشت گردوں کے حملے میں پچیس بہادر سپاہیوں نے شہادت کو گلے لگایااور جوابی کارروائی میں درازندہ کے علاقے میں آپریشن کے دوران دہشت گردوں کے ٹھکانے کو تباہ کردیا گیا۔بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف ماضی کی کامیابیوں کے باوجود، عسکریت پسندی اب ایک نئی آڑ میں دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، جس سے افغانستان کی عبوری حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان روابط کو نظر انداز کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ اس تعلق نے پاکستان میں عسکریت پسندی کو بڑھاوا دیا ہے اور یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ افغان طالبان کی عبوری حکومت نے ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین کے اندر محفوظ پناہ گاہیں ملنے کے بارے میں پاکستانی خدشات کو دور کرنے کے لئے قطعی تعاون نہیں کیا اور سکیورٹی امور کے ماہرین نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ حالیہ ہفتوں میں عسکریت پسندوں کے تشدد میں اضافہ غیر دستاویزی مہاجرین کے تئیں عدم برداشت کی نئی پاکستانی پالیسی کا ردعمل ہو سکتا ہے۔ پاکستان نے ملک میں دہشت گردی میں افغان عناصر کے ملوث ہونے کے معاملہ پر افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا ہے۔ افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے احتجاجی مراسلہ دیا گیا ہے اور ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق سیکرٹری خارجہ نے افغان حکومت کے ناظم الامور کو طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا۔اِس حملے کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد گروپ تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی ہے اور افغان ناظم الامور سے کہا گیا ہے کہ وہ فوری افغان حکومت کو پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کرے۔ پاکستان نے افغان حکومت سے حملے کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا اور کہا ہے کہ افغان حکومت دہشت گرد گروہوں اور ان کی پناہ گاہوں کے خلاف فوری کارروائی کرے۔ حملے کے مرتکب افراد اور ٹی ٹی پی کی قیادت کو حکومت پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر عسکری بات چیت کے لئے ان دنوں اپنے پہلے دورہ امریکہ پر ہیں،بلاشبہ امریکی حکام سے ملاقاتوں میں وطن عزیز کو درپیش سکیورٹی مسائل بالخصوص ہمسایہ ممالک کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کوبڑھاوا دینے کی شرمناک کوششیں بھی زیر بحث آئیں گی۔ کیونکہ پاکستانی قوم اور سکیورٹی فورسز تاریخ کی طویل ترین اور وسیع پیمانے پھر پھیلائی گئی دہشت گردی کی جنگ میں فتح سے ہم کنار ہوچکے ہیں اِس کی قیمت ہم اسی ہزار سے زائد قیمتی جانوں اور بڑے معاشی نقصان کی صورت میں بھی اداکرچکے ہیں لہٰذا تصور بھی نہیںکیا جاسکتا کہ وطن عزیز کے خلاف اُس پیمانے کی دوبارہ جنگ چھیڑی جائے گی جس پیمانے کی جنگ ہم اپنے محدود عسکری وسائل مگر جذبہ ایمانی اور ایک قوم بن کر بیس سال لڑ چکے ہیں ۔ اِس لئے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردی کی یہ نئی لہر اور اِس کے محرکات اپنے مذموم مقاصد حاصل نہیں کر پائیں گے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کی یہ کارروائی اِسی تسلسل کی سب سے بڑی کارروائی کہی جاسکتی ہے اور ہمیشہ کی طرح دہشت گردوں نے افغان سرزمین کا استعمال کیا۔ اگر یہ واقعی غیر قانونی مقیم افراد جن میں افغانی بھی شامل ہیں، اِن کی واپسی کا ردعمل ہے، تو دہشت گرد وں کا دبائو کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا اور پاک فوج کے سربراہ بھی غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی پاکستان میں موجودگی کو ملک و قوم کے لئے سنگین خطرہ قرار دے چکے ہیں، اِس لئے بہت ضروری ہے کہ ایک طرف افغان عبوری حکومت پر دبائو بڑھایا جائے تاکہ وہ دہشت گردوں کی پشت پناہی سے منع ہوجائے تو دوسری طرف افغانوں کو بھی باور کرایا جائے کہ تین دہائیوں سے زائد، لاکھوں افغان خاندانوں کی تین نسلوں کی بے لوث اور انتھک قربانیوں کا سلسلہ میزبانوں کا خون بہاکر نہیں دیاجاتا بلکہ سرتسلیم خم سے شکر گزاری کرکے دیا جاتا ہے، نجانے پاکستانی قوم کے احسانات اور قربانیوں کا صلہ چکانے کا یہ کونسا طریقہ انہوں نے سیکھ لیا ہے جو پاکستان کے دشمنوں کے مذموم عزائم کی مسلسل تکمیل کررہے ہیں۔ برادر اسلامی ریاست اور پاکستان کے ان گنت احسانات کو چکانے کے لئے ضروری ہے کہ افغان حکومت اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے سے روکے کیونکہ دہشت گرد بھی افغانستان سے ہیں اور استعمال بھی افغان سرزمین کا ہی کررہے ہیں مگر افغان عبوری حکومت اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہی حالانکہ دہشت گرد افغان سرزمین کا کھلم کھلا استعمال کررہے ہیں یہی نہیں بلکہ عبوری حکومت کے نمائندے ذرائع ابلاغ میںبھی غیر ذمہ دارانہ گفتگو کرتے نظر آتے ہیں مگر اِن کے مدنظر رہنا چاہیے کہ افغان قوم کے لئے پاکستان کی بے شمار قربانیاں ہیں، ہم نے نہ صرف روس افغان جنگ میں لاکھوں افغان خاندانوں کو بخوشی قبول کرکے کئی دہائیوں تک اِن کی بھائیوں کی طرح میزبانی کی بلکہ نائن الیون کے بعد سے نیٹو فورسز کے انخلا تک افغان عوام کی سلامتی اور تحفظ کے لئے اپنے وسائل فراہم کئے، اور پاکستان کی ہی کوششوں سے امریکی انخلا یقینی ہوا وگرنہ آج بھی صورت حال قطعی مختلف نہ ہوتی۔ اگر افغان عبوری حکومت کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں تو وہ افغانستان سے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرے ، پاکستان کو مطلوب دہشت گرد پاکستان کے حوالے کرے اور دہشت گردی کے لئے افغان سرزمین کا کھلے عام استعمال روکے، وگرنہ یاد رہے کہ پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے اپنے عزم پر ثابت قدم ہے، مگر یہی دہشت گرد افغان عبوری حکومت کے لئے مزید کسی بڑے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں، عالمی برادری کو بھی اِس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ ایسی غلطیاں بڑی اور طویل جنگوں کا پیش خیمہ بن جاتی ہیں، اِس لئے افغان عبوری حکومت کو افغان قوم کو مزید مشکلات میں نہیں دھکیلنا چاہیے۔