Blog

ہم چلے اس جہاں سے،مشیر کاظمی کی نغمہ نگاری

مدثر قدیر

کسی بھی نغمہ کی تخلیق میں طرزوں کے ساتھ الفاظ کا بہترین چنائو اس کی قدر میں اضافہ کرتا ہے۔ موسیقاروں کے پیش نظر ان کی طرزوں کیلئے بہترین الفاظ کا انتخاب ہمیشہ ہی سے پہلی اہمیت کا طالب رہا ہے اور اس ضمن میں قیام پاکستان کے بعد فلم انڈسٹری کے جن گیت نگاروں نے نام کمایا ان میں حزیں قادری،قتیل شفائی اور تنویر نقوی کے ساتھ ایک نام مشیر کاظمی کا بھی ہے جن کے گیت آج بھی کانوں میں رس گھول رہے ہیں ۔مشیر کاظمی کے نام سے شہرت و مقبولیت پانے والے شاعر کا پورا نام سید مشیر حسین کاظمی تھا۔ وہ سید شبیر حسین کاظمی کے ہاں1924ء کو ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے۔ ان والد پولیس سروس میں تھے۔میٹرک کے بعد مشیر کاظمی نے بھی والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پولیس کی ملازمت اختیار کی، مگر جلد ہی کچھ حالات و واقعات کے سبب اس ملازمت کو چھوڑنا پڑا ،پھر ادیب فاضل کا امتحان پاس کر کے شعر و ادب کی طرف دھیان دیااورقیام پاکستان کے بعد ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور ضلع مظفر گڑھ میں آن بسے، مگر یہاں وہ ادبی ماحول نہیں تھا، جس کی انہیں طلب تھی۔ چنانچہ اب علی پور سے ہجرت کے بعد اُن کا مستقبل مستقل لاہور ٹھہرا اور اِسی شہرِ زندہ دِلاں میں انہوں نے فلم انڈسٹری میں اپنے مُدھر گیتوں سے دھومیں مچائیں۔مشیر کاظمی نے نغمہ نگاری کا آغاز 50کی دہائی میں کردیا تھا ان کے نغمات سے لبریز پہلی فلم ہماری بستی تھی جو 1950میں ریلیز ہوئی اس فلم کی موسیقی فیروز نظامی نےترتیب دی تھی اور دراصل یہیں سے مشیر کاظمی اور فیروز نظامی کی جوڑی کا آغاز ہوا اس فلم کے بیشتر گیت پکھراج پپو نے گائے اور ان گیتوں میں اٹھے غم کے بادل،نصیبوں پہ چھائے کو پسند کیا گیااس کے بعد 1952میں ان کے نغمات پر بنی تصویر بھیگی پلکھیں سامنے آئی جس کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے اس فلم میں عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا گیت دل ہمارا لوٹ کے مقبول ہوا مگر ان کو شہرت 1952میں بننے والی فلم دوپٹہ کے گیتوں سے ملی جس کے موسیقار فیروز نظامی تھے اور یہی وہ فیروز نظامی ہیں جنہوںنے مشیر کاظمی کو 2سال قبل چانس دیا مگر اس بار فیروز نظامی ،مشیر کاظمی اور ملکہ ترنم نورجہاں کی تکون نے فلم دوپٹہ کے گیتوں کو برصغیر پاک وہند میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا اس فلم کے تمام گیت مقبو ل ہوکر زبان زد عام ہوئے مگر جس گیت کو عوام میں مقبولیت ملی اس کے بول تھے چاندنی راتیں سب جگ سوئے ہم جاگیں تاروں سے کریں باتیں اس گیت کے حوالے سے میرے ساتھ بات کرتے ہوئے ہدایتکار اور مصنف محمد پرویز کلیم نے بتایا کہ ایک بار میں یعنی پرویز کلیم ہوٹل کنگ سرکل میں چائے پی رہا تھا کہ وہا ں پر مشیر کاظمی بھی تشریف لے آئے اس کے بعد ان سے باتیں شروع ہوئیں اور میں نے ان سے اس گیت کے بارے میں پوچھا تو گویا ہوئے کہ میں پیرامائونٹ سینما کی چھت پر اکیلا سورہا تھا مگر ذہن میں کچھ سوال تھے اور اسی دوران اٹھ کر آسمان کو دیکھتا تھا چاندنی رات تھی اور چاند کی روشنی میں ستارے ایک کرسٹل کی طرح نظر آرہے تھے اسی بے چینی میں میرے ذہن میں یہ مصرعہ آیاسب جگ سوئے ہم جاگیں ،تاروں سے کریں باتیں اور پھر اسی کو لے کر میں نے گیت لکھا جسے ملکہ ترنم نورجہاںنے اپنی آواز میں امر کردیا۔ فلم دوپٹہ کی کامیابی کے بعد مشیر کاظمی پاکستان فلم انڈسٹری کی ضرورت بن گئے اور انہوں نے اپنی وفات 8دسمبر 1975تک 86فلموں کیلئے 270کے قریب نغمات تحریر کیے جو اپنی مثال آپ ہیں جبکہ 8پنجابی فلموں کیلئے بھی 11گیت تحریر کیے جن میں سلطان راہی کی شہرہ آفاق فلم بشیرا کا آخری گیت بھی شامل ہے اور اس پنجابی گیت کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی اس فلم کے موسیقار کمال احمد جبکہ اس کے بول تھے بنو رانی بڑی دلگیر وے ،کندھا ڈولی نو دے جاویں ویر وے ۔
مشیر کاظمی کے فن کی خوبی ان کا گانے کی سچویشن کو سمجھنا تھا جس کیلئے وہ فلم کے سکرپٹ کو مکمل پڑھتے اور اس کی جزیات پر گہری نظر رکھتے اس کے علاوہ ان کے پیش نظر یہ بھی ہوتا کہ اس فلم کی موسیقی کون دے رہا ہے جبکہ اس نغمہ کو کس پر فلمایا جائے گاان کے گیتوں میں ہمیں ان کے تخیل اور فن کارانہ عظمت کا احساس محسوس ہوتا ہے۔مشیر کاظمی کو قومی گیت لکھنے میں بھی ملکہ حاصل تھا انھوں نے 65اور 71کی پاک بھارت جنگوں کے دوران جو قومی نغمات تخلیق کیے ان کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور خصوصی طور پر ریڈیو پاکستان لاہور میں نسیم بیگم کی آواز میں گایا ہوا قومی گیت اے راہ حق کے شہیدو آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کرجاتا ہے۔مشیر کاظمی نے نغمہ نگاری کے علاوہ نظم کے میدان میں بھی اپنا نام پیدا کیا ان کی نظموں کو اردو ادب کی جدید شاہکار نظمیں تصور کیا جاتا ہے ان کی جن نظموں کو شہرت ملی ان میں قائدِاعظم کی قبر پر ،نقطہ، حسین سب کا ،حسین خاموش کیوں کھڑا ہے، دس محرم، تصورات کربلا،سجدہ،، زینب سر بازار ہے خاموش ہے دنیا اور عشق علی کو شہرت ملی جبکہ ان کی غزل اپنے معاصرین میں ممتاز اہمیت کی حامل تھی۔مشیر کاظمی کے فن کا لج برائے خواتین کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مریم عرفان کہتی ہیں کہ مشیر کاظمی ایک محبِ وطن پاکستانی تھے جن کے اندر اپنی مٹی کی مہک خوشبو کی طرح رچی بسی ہوئی تھی،اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویروتمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیںجب نسیم بیگم کی آواز میں سننے والوں کے کانوں تک پہنچا تو اُن کے اشکوں کی روانی کو تیز تر کرنے کا سبب بنا ،یہ کلام جہاں اپنی فنی اور تخلیقی خوبصورتیاں رکھتا ہے وہاں عوام کے دلوں میں ملی جذبات ابھارنے اور قومی غیرت بیدار رکھنے میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کرتا ہے۔مشیر کاظمی کی وفات کے کافی عرصہ بعد اُن کی مکمل شاعری’’کلیاتِ مشیر کاظمی‘‘کے نام سے لاہور سے شائع ہوئی جس کی وجہ سے اب ان کے فن پر مزید کام ممکن ہوگا اس کتاب میں شامل شاعری تین حصوں پر مشتمل ہے۔جس میں پہلے حصے میں وہ نظمیں ہیں جو ان کی قومی شاعری تصور کی جاتی ہیں، دوسرے حصے میں منقبت ، سلام اور مرثیہ جبکہ تیسرا حصہ مقبول فلمی نغموں کی صورت میں شاملِ کتاب ہے۔ مشیر کاظمی اپنی جاندار شاعری اور امر ہو جانے والے گیتوں کی وجہ سے اردو ادب اور موسیقی سے شغف رکھنے والوں کے ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ان کا انتقال دل کے عارضے کی وجہ سے 8 دسمبر 1975 کو ہو اور انہیں مومن پورہ، میکلوڈ روڈ لاہور کے قریب واقع قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔پاکستان فلم انڈسٹری کے فروغ اور شعبہ موسیقی کیلئے مشیر کاظمی کی دی گئیں خدمات لازوال ہیں جن کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور جب بھی پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ مرتب کی جائے گی تو مشیر کاظمی کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button