آج کے کالمعبدالستار اعوان

’’پہلی پیشی‘‘…ایں سعادتِ بزور بازو نیست

عبدالستار اعوان

شاعر پاکستان اورایک نہایت پیارے انسان جناب ناصربشیر کی طرف سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا کہ ان کی کتاب ’’پہلی پیشی‘‘کی تقریب پذیرائی28نومبر 2023ء کو دن دوبجے قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اقبال ٹاؤن لاہور میں منعقد ہو رہی ہے جس میں آپ کو شرکت کی بھرپور دعوت دی جاتی ہے۔
قارئین کرام!’’پہلی پیشی‘‘عمرے کے سفر کی بڑی ایمان افروز اور دلآویز رُوداد ہے۔یہ کتاب جولائی2016ء میں مظہر سلیم مجوکہ کے ادارے ’’کتاب ورثہ‘‘کی طرف سے شائع ہوئی اور انہی دنوں برادرم ناصر بشیر نے بڑی محبت کے ساتھ ہمیں عنایت فرمائی۔راقم نے اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا اور انہی دنوں اس پر ایک جامع تبصرہ بھی قلمبند کیاتھا۔ اس تقریب کی وساطت سے یہ جان کر مسرت ہوئی کہ اب تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اورتازہ ایڈیشن مشہور ِزمانہ پبلشر ’’سنگ ِمیل‘‘کی طرف سے شائع ہونے جارہاہے۔ ’’پہلی پیشی‘‘کی تقریب پذیرا ئی کا دعوت نامہ موصول ہوتے ہی اسی وقت تہیہ کرلیا تھاکہ اس خوبصورت ادبی اور دینی محفل میں ضرور شرکت کرنی ہے کیونکہ ایسی پاک محفل جس میں صرف ذکر ہی جنابِ محمد عربی ﷺ کا ہو اس میں شرکت نہ کرنا بڑی بد نصیبی ہے۔چنانچہ28نومبر کا بے چینی سے انتظار رہا اورجب یہ دن آیا تو راقم وقت ِ مقررہ یعنی دوبجے سے پہلے ہی اس تقریب میں جاپہنچاکیونکہ ناصر صاحب کا کہنا تھا کہ یہ تقریب عین وقت پر شروع ہو جائے گی۔پہلے تو میں سمجھا کہ یہ ان کی جانب سے ایک روایتی سا جملہ ہے کیونکہ آج تک قلیل ہی ایسا ہوا ہے کہ کوئی تقریب’’وقت ِ مقرر ہ‘‘ پر شروع ہوئی ہو اورپھر تقریبات میں جو لوگ وقت کی سخت پابندی کرتے ہوئے جا پہنچتے ہیں تو وہ بعد میں ’’کف افسوس ’’ضرورملتے ہیں کیونکہ ان بے چاروں کو کم از کم ایک دو گھنٹے تقریب شروع ہونے کا بے چینی سے انتظارکرنا پڑتاہے،لیکن اس پروگرام کی ایک خاص بات جو مجھے نظرآئی وہ یہ تھی کہ جتنے بھی حاضر ین تھے وہ بڑے جوش و جذبے کے ساتھ بروقت تشریف لائے۔ ان کے دمکتے چہرے بتا رہے تھے کہ یہ لوگ محض ہال بھرنے کرنے کے لئے منت سماجت کر کے نہیں بلائے گئے بلکہ یہ خالص ادبی اور علمی حلقوں کے لوگ تھے جنہیں ناصر بشیر کی لافانی شاعری اور ان کی محبت بھری شخصیت اس جانب کھینچ لائی تھی۔ کم از کم میرے لئے حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ اس تقریب میں لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ آئے ہوئے تھے۔سچ پوچھئے تو مجھے اس دن انداز ہوا کہ ناصر بشیر کو واقعی ادبی حلقوں میں ایک ’’مرشد‘‘کی حیثیت حاصل ہے اور لوگ دیوانہ وار ان سے محبت بلکہ‘‘عقیدت‘‘رکھتے ہیں۔بلاشبہ یہ سعات کم لوگوں کے حصہ میں ہی آیاکرتی ہے کہ ؎
ایں سعادتِ بزور ِ بازونیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
(جب تک عطا کرنے والا خداکسی کو کوئی مرتبہ اور عزت نہ عطا کرے کوئی شخص بازو کی طاقت سے یہ رتبہ نہیں حاصل کر سکتا)۔
قارئین! ’’پہلی پیشی‘‘176صفحات پر مشتمل ہے۔ناصر بشیر نے اسے جس کیفیت میں تحریر کیا ہے مجھے تو یہ ’’قلم برداشتہ‘‘معلوم ہوتی ہے۔تحریرکا بے ساختہ پن قاری کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ’’دیکھے ہوئے اک خواب کی تعبیرملی ہے‘‘،یہ کون ہے جو مرا ہاتھ تھامنے آئے؟‘‘،سفرعشق کاآغاز ہواچاہتا ہے‘‘،تیری تقسیم کا انداز عجب ہے مولا‘‘،رخصت کاوقت ہے زادِ راہ اٹھا‘‘جیسے مضامین قاری کواپنے سحر سے باہر نہیں نکلنے دیتے۔اس کتاب پر ویسے تو بہت سے قلمکاروں نے تبصرے قلمبند کیے لیکن جوجاندار تاثرات سینئر اخبار نویس جناب مجیب الرحمن شامی نے رقم کیے ہیں وہ قارئین کے لئے بڑے قابل غور ہیں۔گویا انہوں نے سمندر کو کوزے میں بندکردیا ہے۔میرے خیال سے شامی صاحب کے جاندار تبصرے کے بعد اس کتاب پر کسی تجزیے وغیرہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔انہوں نے لکھا:’’یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ناصر بشیر زیادہ اچھے شاعر ہیں یا نثر نگار۔غزل میں تو انہوں نے اپنا نقش جمایاہی تھا،نظم میں انہوں نے مولانا ظفر علی خان کی پیروی کرکے دکھادی ہے۔وہ حالات حاضرہ پرروزانہ نظم لکھتے ہیں اور داد پاتے ہیں۔اس سفرنامے کی ایک ایک سطر اورایک ایک لفظ سے گواہی ملتی ہے کہ یہ ایک مقدس سفر کا کوئی روایتی روزنامچہ نہیں ہے۔اسے بجا طور پر ایک زندہ اور شگفتہ روداد کہاجاسکتاہے جو پڑھنے والوں کواپنی طرف کھینچتی اورا ن کے دلوں میں آتش شوق بھڑکا دیتی ہے جودیارِ رسول اللہ ﷺ میں پہنچ کر ہی سرد ہوسکتی ہے‘‘۔
آمدم برسر مطلب:جب راقم السطور قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے جگمگاتے ہال میں ایک بج کر 45 منٹ پر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ادبی ذوق رکھنے والے احباب جوق درجوق تشریف لارہے تھے۔یہاں ہماری پہلی ملاقات معروف کالم نگار عامر خاکوانی کے چھوٹے بھائی رضوان نصیر سے ہوئی۔انہوں نے ہمیں ویلکم کہا اور ایک کاغذ ہماری جانب بڑھایاکہ اس پر اپنی حاضر ی لگادیجیے۔ جب ہم نے اس پر اپنا نام لکھا تو رضوان نصیر کے چہرے پر مسکراہٹ ابھر آئی۔ کہنے لگے کہ آپ وہی عبدالستار اعوان ہیں جو ’’قومی ڈائجسٹ‘‘کے لیے انٹرویوز کرتے ہیں؟آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔چند منٹ کے بعد ڈاکٹرچودھری تنویر سرور اور محترم نوید چودھری بھی تشریف لے آئے اوران کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ چلنے لگی،پھر ٹھیک دو بجے تلاوتِ قرآن کریم اور نعت رسول مقبولﷺ کے ساتھ اس تقریب کا آغاز کردیا گیا۔اس تقریب کی صدارت نامور صحافی سہیل وڑائچ نے کی اور غلام حسین ساجد،نوید چودھری،نجم ولی خان،ڈاکٹر اختر حسین سندھو تقریب کے مہمان خصوصی تھے جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ڈاکٹر عائشہ عظیم نے سرانجام دیئے۔مقررین نے بڑے خوبصورت الفاظ میں ’’پہلی پیشی‘‘پراپنی آراء پیش کیں اور صاحب ِ کتاب کو خراج تحسین پیش کیا۔ہر مقرر کے حصے میں پانچ دس منٹ آئے لیکن انہوں نے قلیل وقت میں کتاب پر بڑے جامع انداز میں لب کشائی کی۔سہیل وڑائچ اورغلام حسین ساجد نے ناصر بشیر اور ان کے فن پر جاندار گفتگو کی اور’’پہلی پیشی‘‘کو ہمیشہ زندہ رہنے والی کتاب قرار دیا۔گروپ ایڈیٹرسٹی42سینئر صحافی نوید چودھری نے اپنی گفتگو میں کہا کہ:’’ناصر بشیر کے ساتھ میرا جو تعلق 33برس قبل بناتھا وہ آج تک قائم ہے۔ناصر بشیر انتہائی بے باک شاعر اور ادیب ہیں۔ان میں ہمیشہ سے ہی مشاہدہ کی صلاحیت خوب رہی ہے۔ پہلی پیشی ان کی ایک عمدہ کاوش ہے‘‘۔ ڈاکٹر اختر حسین سندھو نے ٹھیٹھ پنجابی زبان میں عمدہ گفتگو کی اور ’’پہلی پیشی‘‘کے عنوانات،مصنف کے احساسات اور طرزِ تحریر پر روشنی ڈالی۔سچ پوچھئے تو مجھے ڈاکٹر اختر حسین سندھو اور سہیل وڑائچ کی گفتگو نے زیادہ متاثر کیا۔اس تقریب میں ثوبیہ نیازی،حسیب پاشا المعروف ہامون جادوگر،اجالا ناصر،ارفع ناصر، خورشید زمان، کامران، طارق ضیاء،شہباز خان،قاضی عبدالرؤف،اظہر عباس،شہزاد چودھری سمیت بہت سے احباب نے شرکت کی۔تقریب کے اختتام پرپروفیسر ناصر بشیر نے بڑی کشادہ دلی اور چاہت کے ساتھ ایک ایک دوست کا نام لے کر اس کا تعارف کروایا اور اس کاشکریہ ادا کیا۔قصہ مختصر‘ یہ ایک ایسی خوبصورت محفل تھی جس کی یادیں تادیر زندہ رہیں گی۔

جواب دیں

Back to top button