سیاسی جماعتوں کے منجن کا تجزیہ

حافظ قاسم مغیرہ
وطن عزیز میں کثرت سے فروخت کیے جانے والے سیاسی منجن کے اجزائے ترکیبی پانچ ہیں یعنی جمہوریت، آئین، پارلیمان کی بالادستی، ترقی و خوش حالی اور غیر جمہوری قوتوں پر تنقید آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعتاً یہ منجن انہی اجزاء سے مل کر بنا ہے اور کیا سیاسی جماعتوں کا یہ منجن خالص ہے یا اس میں مضر عناصر بھی شامل ہیں؟
سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ سیاسی جماعتیں اپنے جمہوریت کے دعوے میں کتنی سچی ہیں۔ منجن کا کیمیائی تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ اس میں جمہوریت نام کی کوئی شے نہیں ہے بل کہ جمہوریت کے نام پر شامل کیا عنصر دراصل جمہوریت کا خوف ہے۔ حقیقی جمہوریت کے اس خوف کی وجہ سے ( جماعت اسلامی کے علاوہ) کسی سیاسی جماعت کی قیادت خاندان سے باہر نہیں گئی۔ وراثتی سیاست کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عصبیت لوگوں کو جوڑے رکھتی ہے، اس لیے وراثتی سیاست کا وجود ضروری ہے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اسی وراثتی سیاست کی وجہ سے جمہوریت کا چہرہ چیچک زدہ ہے۔ اسی طرز سیاست کی وجہ سے سیاست دان ہر اصول اور آدرش کی قربانی دے کر ملک سے کھلواڑ کرتے ہوئے اپنے بچوں کو حکم ران سے کم درجے پر دیکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔اس طرح مامتا اور بپتا ملک سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں اور طرز سیاست میں آمریت اور فسطائیت در آئی ہے۔ وہ تمام راستے جن پر چل کر نئے لوگ سیاست میں آسکتے ہیں، مسدود ہیں۔ انٹرا پارٹی الیکشنز شجر ممنوعہ ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے ذکر سے زباں پہ آبلے پڑتے ہیں۔ طلباء یونین معدوم ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے کورس میں گایا جانا والا ایک گیت آئین کی بالادستی کا بھی ہے۔ آج تک کسی سیاسی جماعت نے یہ نہیں بتایا کہ ہم نے آئین پر عمل کرتے ہوئے معاشرے سے غربت ختم کردی۔ استحصال کا خاتمہ کرکے ہم نے آئین کو وطن عزیز کی سب سے بالادست قوت بنادیا۔ دستور پر عمل کرتے ہوئے ہم نے وطن عزیز میں مساوات کا نظام کردیا۔ آئین کی اہمیت پر سیمینار بھی ہوتے ہیں۔ ایوان میں ایک قاضی صاحب بھی تشریف لاتے ہیں اور آئین کا نسخہ لہرا کر اس کی اہمیت پر عالمانہ گفتگو بھی کرتے ہیں لیکن عام آدمی کا کیا کریں؟ وہ آئین کی تعریف سے نابلد ہے اور جمہوریت کے اوصاف سے ناآشنا۔ اسے کس طرح قائل کیا جائے کہ آئین کس چڑیا کا نام ہے؟ آئین میں درج ہے کہ تمام شہری برابر ہیں لیکن کیا عملاً بھی ایسا ہے؟ شہریوں کا برابری کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو قومی شاہ راہوں پر لکھی عبارتیں پڑھیے۔ ایک سطر یہ کہہ رہی کہ تمام شہری ملک کی ترقی کے لیے ٹال ٹیکس ادا کریں۔ اگلے جملے میں بتایا گیا ہے کہ برہمنوں کو ٹال ٹیکس سے استثناء حاصل ہے۔اسی طرح عدالتوں میں عام آدمی سے روا رکھا جانے سلوک بھی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ عملاً تمام شہری برابر نہیں ہیں ۔ ازروئے آئین، ملک میں لسانی اور صوبائی تعصبات نہیں پھیلائے جائیں گے لیکن یہاں صورت حال یہ ہے سیاسی جماعتیں لسانی اور صوبائی تعصبات کے فروغ سے گریز نہیں کرتیں۔ الغرض، انسانی حقوق اور احترام آدمیت سے متعلق تمام شقیں عملاً معطل ہیں۔ آئین کی بالادستی کی ایک عملی شکل یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات سے فرار چاہتی ہیں۔حال ہی میں سعد رفیق نے ایک بیان دیا ہے کہ نوے دن میں انتخابات کی بات محض سیاسی نعرہ ہے۔
سیاسی جماعتیں پارلیمان کی بالادستی کے فلک شگاف نعرے بھی لگاتی ہیں لیکن منتخب وزیراعظم ایوان میں داخل ہونا پسند نہیں کرتا۔ ایوان میں ہونے والی گفتگو انتہائی سطحی اور پست ہوتی ہے۔ بیشتر اراکین قانون سازی کے درست طریق کار سے بھی واقف نہیں ہیں۔ عام آدمی کو درپیش مسائل سنجیدہ بحث کا موضوع نہیں بنتے۔ ہر طرح کی قانون سازی اور چلت پھرت صرف اشرافیہ کے لیے ہے۔ اندھا دھند قانون سازی ہماری پارلیمانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ وطن عزیز کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کا مقصد صرف علاقے میں ترقیاتی کام سمجھ لیا گیا ہے۔ دراصل یہ بلدیاتی نمائندوں کا کام ہے اور چوں کہ بلدیاتی نمائندے موجود نہیں ہیں، اس لیے ( کبھی کبھار) ایم این ایز اور ایم پی ایز ترقیاتی کام کروادیتے ہیں جب کہ ان کا اصل مقصد یعنی قانون سازی ان کے لیے ایک بے معنی شے بن کے رہ گیا ہے۔ پارلیمان میں عدالتی اصلاحات موضوعِ بحث نہیں بنتیں اور افسر شاہی کو لگام دینے کے طریق کار پر سنجیدہ گفتگو نہیں ہوتی۔
سیاسی جماعتیں ترقی و خوش حالی کا چورن بھی بیچتی ہیں اور اس کے لیے گم راہ کن اعداد و شمار کا سہارا لیتی ہیں۔ ترقی کرنے سے زیادہ زور ترقی ثابت کرنے کے لیے صرف کیا جاتا ہے۔ جب کہ وطن عزیز میں صرف چند بڑے شہروں کے پوش علاقوں نے ترقی کی ہے وہ بھی انفراسٹرکچر اور بنیادی سہولتوں کی حد تک۔ کسی بھی شہر کی چند مرکزی شاہ راہوں سے دائیں بائیں جائیے اور ترقی کا جائزہ لیجیے۔ لاقانونیت، مہنگائی ،غربت اور ناجائز ٹیکسز کی بھرمار نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے لیکن ترقی کے دعوے دار ڈھٹائی سے ترقی کے دعووں پر قائم ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا ایک مقبول عام نعرہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ اپروچ کا بھی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز کی سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی ہی پیداوار ہیں۔ کوئی سیاسی جماعت ایام وصل میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بننا پسند نہیں کرتی۔ یہ نعرہ صرف اقتدار سے محرومی کے بعد یاد آتا ہے اور اس نعرے کا مقصد بھی محض ایک سائباں کی محرومی پر آہ و بکا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر وطن عزیز کی تمام سیاسی جماعتیں واقعتاً اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن جائیں تو غیر جمہوری قوتیں، سیاسی عمل میں مداخلت نہ کرسکیں۔ سیاسی جماعتیں ہر ہنگامی صورت حال میں کشکول گدائی تھامے ہوئے، غیر جمہوری قوتوں کے دروازے پر دستک دیتی ہیں اور سنگ آستان یار بننے پر آمادہ رہتی ہیں۔
یہ سب کرنے کے بعد بھی یہ خود کو جمہوریت پسند، آئین کے علم بردار اور گڈ گورننس کے ماہر سمجھتے ہیں۔