ایڈیٹوریل

جنرل سید عاصم منیر کا دورہ امریکہ

پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیراپنے پہلے سرکاری دورے پر امریکا پہنچ گئے ہیں۔ جنرل سید عاصم منیر امریکا کے اعلیٰ فوجی اور دیگر سرکاری حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔ اور بلاشبہ اِن ملاقاتوں میں خطے میں تیزی سے بدلتی صورت حال اور نئے درپیش چیلنجز پر بات ہوگی جن کا اِس وقت وطن عزیز کو سامنا ہے۔ جن میں سرحد پار بالخصوص افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی اور وہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں یقیناً قابل ذکر ہوں گے۔ اِس کے ساتھ ساتھ کابل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی بلاشبہ بات چیت ہوگی۔ قوی امکان ہے کہ پاک فوج کے سربراہ دورہ امریکہ کے دوران مختلف تھنک ٹینک کے اراکین سے ملاقاتیں بھی کریں اور خطاب بھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیرکا بطور آرمی چیف امریکہ کا پہلا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ افغانستان سے نیٹو فورسز یعنی امریکی فوج کے انخلا کے بعد طالبان کی عبوری حکومت کا قائم ہونا اور پاکستان کے معاملے اِس عبوری حکومت کا رویہ یکسر بدلنا بلکہ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی میں مزید اضافہ ہونا تشویش ناک ہے۔ اِس میں قطعی دو رائے نہیں کہ نائن الیون کے بعد سے افغانستان کے معاملے پر پاکستان نے انتہائی ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیا، امریکہ اور طالبان کو معاملہ جنگ کی بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر ٓامادہ کرنے کی کوشش کی۔ مگر اِس کے باوجود نوبت بیس سال طویل جنگ تک پہنچی جس کا انجام بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی ہوا، اِس جنگ کے نتیجے میں امریکہ کا کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا، دونوں اطراف سے لوگ مارے گئے مگر بات مذاکرات کی میز پر ہی ختم ہوئی جس میں پاکستان نے بھرپور سہولت کاری اور سازگار ماحول کے لئے فریقین سے رابطہ رکھا، کیونکہ پاکستان کا شروع سے واضح موقف ہے کہ افغانستان میں قیام امن سے ہی خطے میں ترقی کا دور شروع ہوگا اِس لئےپاکستان نے جلد از جلد اِس جنگ کے خاتمے اور مذاکرات کے لئے دونوں فریقین کو قریب لانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی اور بالآخر امریکی فوج کی واپسی ہوئی۔ مگر افسوس کہ اِس جنگ کے نتیجے میں پاکستان بدامنی کا شکار ہوا، پاکستانی حدود میں امریکی ڈرون حملوں نے سکیورٹی کے مسائل پیدا کئے اور اِن حملوں سے متاثرہ لوگوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا، پاکستان میں دہشت گردی بڑھی کیونکہ اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کے دوران بھارت نے افغانستان کو دہشت گردی کے لئے بھرپور استعمال کیا اور جن دہشت گرد تنظیموں کا امریکہ دنیا بھر میں پیچھاکرتا رہا ہے اُن دہشت گرد تنظیموں کو نیٹو فورسز کی موجودگی میں افغانستان میں جمع کیا اورپاکستان میں دہشت گردی کے لئے میدان میں اُتارا، لہٰذا اِس افغان جنگ نے اسی ہزار سے زائد قیمتی پاکستانیوں کی جانیں ہی نہیں لیں بلکہ ایسا معاشی نقصان بھی کیا ہے جس نے ہماری معیشت کی کمر توڑ دی ہے اور پاکستان بارہا یہ مقدمہ عالمی برادری کے روبرو پیش کرچکاہے۔ اب بھی صورت حال نہیں بدلی اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال کیاجارہا ہے اور دہشت گردوں کو محفوظ پناگاہیں ملی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے پہلے سے جغرافیائی تبدیلیوں کی وجہ سے حالت جنگ میں موجود پاک فوج کو درپیش چیلنجز میں ایک اور اضافہ ہوگیا ہے، امریکی انخلا اور افغان عبوری حکومت کے بعد بھی پاکستان میں دہشت گردی کی جتنی بڑی کارروائیاں ہوئی ہیں اِن میں افغان سرزمین کا کھلم کھلا استعمال ہوا ہے۔ اِس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی حکام پاکستان کو درپیش سکیورٹی اور معاشی چیلنجز کو برحقیقت جانیں اور اِن چیلنجز سے نبرد آزماہونے کے لئے یقینی مدد فراہم کریں کیونکہ امریکہ افغان جنگ سے پہلے پاکستان کو ایسے چیلنجز کا قطعی سامنا نہیں تھا جو اِس جنگ کے دوران اور بعد میں درپیش ہیں، بلاشبہ معاشی مسائل کا شکار ایک ریاست جو بیک وقت کئی محاذوں پر دہشت گردی کا مقابلہ کررہی ہے، اِس کو وسائل فراہم کرنے سے ہی دہشت گردوںکا یقینی قلع قمع ہوگا، چونکہ پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی رہا ہے، اِس لئے توقع کی جاتی ہے کہ امریکہ اِس صورت حال میں پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button