آج کے کالممحمد اکرم

بنایا شَیخ نے سیماب کو کیا

محمد اکرم

اللہ رب العزت کا بنایا ہوا نظام ہے کہ جو بھی اس دنیافانی میں آیا مسافر کی حیثیت سے اپنے ایام زندگی گزار کر دارِ فانی سے ابدی جہاں چلاجاتا ہے۔ اللہ کریم نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ اس کائنات میں رہتے ہوئے نیکی اور اچھائی کا راستہ اختیار کرتا ہے یا پھر برائی کے راستوں پر چلتے ہوئے زندگی کے قیمتی لمحات کوضائع کردیتا ہے۔کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس دنیا سے تو چلے جاتے ہیںمگر اپنی زندگی میں ایسے کام کر جاتے ہیں کہ دنیامیں بسنے والے لوگ ان کے کاموں سے تا قیامت فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔حضرت مولانا محمد اکرم اعوانؒ کا شمار بھی اللہ کریم کی ان کی برگذیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا فانی سے آخرت کی طرف تو رخت ِ سفر تو باندھ گئے مگر ان کے کارہائے نمایاں رہتی دنیا تک عوام الناس کے لئے مشعل راہ ہیں۔ حضرت مولانا محمد اکرم اعوانؒ ضلع چکوال کے علاقے نور پور سیتھی میں دسمبر1934ء میں پید اہوئے۔ان کا خاندان اس علاقے میں کئی نسلوں سے آبادتھا۔
ان کا تعلق ایسے گھرانے سے تھا جن کے آبائو اجداد نے برصغیر پاک و ہند کے لئے بڑی قربانیاں دیں۔تحریک ِ پاکستان میں ان کے خاندان نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔دوسری جنگ ِعظیم،ستمبر1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں ان کے خاندان کے اکتالیس افراد نے جام شہادت نوش فرمایا۔قیام پاکستان کے وقت حضرت مولانا محمد اکرم اعوانؒ قریباً تیرہ برس کے تھے اس لئے تحریک ِ پاکستان سے لے کرقیام پاکستان کے تمام حالات و واقعات ان کی آنکھوں دیکھا حال ہے۔حضرت مولانا محمد اکرم اعوانؒ کا گھرانہ چوں کہ دین دار تھا۔ ان کے خاندان کی خواتین و حضرات دینی روایات کی پاسداری کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ اسی اثناء میں انہیں حضرت مولانا اللہ یار ؒ کی تقریر سننے کا موقع مل گیا۔وہ اللہ اللہ کرنے والے صوفی بزرگ تھے۔ وہ نہ صرف خود اللہ اللہ کرتے تھے بل کہ دوسروں کوبھی اللہ اللہ سکھاتے تھے۔اور تعلیمات و برکات نبوتﷺ کو تقسیم کرتے تھے۔ حضرت مولانا اللہ یارخانؒبرملا کہتے تھے کہ کوئی ہے جو مجھ سے برکات ِ نبوت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ایک مرتبہ چکوال کے گائوں میں تقریر کر رہے تھے ۔ ان کی سادہ مگر جامع گفت گونے حضرت مولانا محمداکرم اعوانؒ پر اس قدر اثر کیا کہ پھر مستقل ہی ان کی صحبت اختیار کر لی۔ حضرت مولانا محمد اکرم اعوانؒ1957ء سے لے کر1984ء تک حضرت مولانا اللہ یارؒ کی صحبت میں رہے۔انھیں اپنے شَیخ سے اس قدر محبت اور عقیدت تھی کہ اگرملاقات کو ایک ہفتہ گزرجاتا توبے چینی محسوس کرتے اور فوراًاپنے شَیخ کی خدمت میں حاضری دیتے اور تسکینِ قلب پاتے۔انہوں نے اپنے شَیخ سے علم و عرفان کے بیش بہا خزانے لوٹے۔ حضرت مولانا محمد اکرم ؒمفسر قرآن،مترجم قرآن، شاعر ،ادیب اور صوفی بزرگ تھے۔انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ قرآن مجید کی تین تفاسیر (اسرار التنزیل،اکرم التفاسیر اور رب دیا گلّاں) سے عوام الناس استفادہ کررہے ہیں۔ان کی شاعری کے قریباً نو مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔سفرنامہ،شرح دلائل السلوک ، شرح مسائل السلوک،شرح مشکوٰۃ شریف کے علاوہ بہت ساری کتب کے مصنف ہیں۔
قریباًساٹھ دہائیاں انہوں نے منبر رسولﷺ پر بیٹھ کر قرآن و حدیث کی تعلیم فرمائی ۔ان کی خوبی تھی کہ انتہائی سادہ زبان میں تقریر فرماتے تھے۔ ان کی تقریر اس قدر دھیمی آواز میں ہوتی تھی گویا کہ آپس میں آمنے سامنے بیٹھ کر گفت گو کر رہے ہوں۔ وہ سالکین سے بہت پیار اور شفقت سے پیش آتے تھے۔صبح دس بجے سے دوپہر دو بجے تک انہوں نے ہرخاص وعام سے ملاقات کا وقت وقف کر رکھا تھا۔ ایک عام انسان بھی بآسانی ان سے ملاقات کرسکتا تھا۔ انھوں نے ہمیشہ محبتیں بانٹی ہیں۔
حضرت مولانا اللہ یار ؒ کے بعد سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے شَیخ بنے۔1964ء سے 1980ء تک سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے اجتماعات منارہ میں ہوتے رہے ہیں۔اس کے بعد یہ اجتماعات دارالعرفان میں ہونا شروع ہوگئے۔حضرت مولانا محمد اکرم اعوانؒنے ہمیشہ حق اور سچ کی بات کو ڈنکے کی چوٹ پر بیان فرمایا۔ وہ قومی و بین الاقوامی حالات پر نہ صرف بڑی گہری نظر رکھتے تھے بل کہ اس پر بے لاگ تبصرہ بھی کرتے تھے۔وطن عزیز کی محبت ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔انھوں نے پوری دنیا میں سفر کیا اور دیارِ غیر میںاللہ کے نام کو پیغام کو پہنچایا۔وہ چاہتے تو دنیا کے کسی ملک میں رہائش پذیر ہوکر پرتعیش زندگی بسر کرسکتے تھے مگر آخری سانس تک وطن عزیز ہی ان کا مسکن رہا اور شاہانہ زندگی بسر کی۔وہ قرآن و سنت کو سپریم لاء مانتے ہوئے ملک پاکستان پر اللہ اور اس کے نبی اکرم ﷺ کے قانون کا نفاذ چاہتے تھے اور اس کے لئے انھوں ہرسطح پر بھرپور کوشش کی۔حضرت مولانا محمد اکرم اعوان ؒنے ضیاء الحق،فاروق لغاری،نواز شریف اور پرویز مشرف کو بلاسودی معاشی نظام کا عملی نمونہ بنا کے دکھایا۔تعلیم کے میدان میں انھوں نے انجمن دارالعرفان کے تحت صقارہ ایجوکیشن سسٹم متعارف کرایا جہاں دینی اور دنیاوی تعلیم دی جاتی ہے۔ صقارہ ایجوکیشن سسٹم بورڈ میں کئی دہائیوں سے نمایاں پوزیشن حاصل کررہا ہے۔
الشَیخ حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مدظلہ العالی حضرت مولانا محمد اکرم ؒ کے بارے فرماتے ہیں:’’وہ کوہِ گراں بھی تھے اور بحرِ رواں بھی، وہ صدف بھی تھے اور ابرِ باراں بھی، وہ شبنم ِ گل بھی تھے اور تجلی ٔ ابر بھی۔دنیوی حاجات کے لئے ملنے والا بھی انھیںکبھی بھلانہ پایا اور جس نے انھیں جان لیا وہ تو خدایاب ہوا۔اب یہ مقدر کی بات ہے کہ کس نے کتنا جانا! اپنے مرید انھیں اپنی مراد کی طرح عزیز تھے۔ دکھ درد سنانے والا خود تو ہلکا ہو کر چلا جاتا لیکن وہ اس بار کو اپنے دل میں محسوس ہی نہیں اس کی شدت کو برداشت بھی کرتے۔ ان کی آہِ سحرگاہی میں ہر ایک دُودِ دل کا درد موجود ہوتا لیکن۔۔۔!کون اندازا کرسکتا ہے کہ ایسا قلب ان دلوں کے کیا درد رکھتا تھا جو اس دل کے ساتھ دھڑکتے تھے۔ ایسی عطا شعار ہستی اپنے سینے میں ان کے لئے کیا کچھ رکھتی تھی جن سینوں میں اس کے اپنے نام کی شمع فروزاں تھی۔ مرید تو اپنی حیثیت کے مطابق محبت کرتا ہے لیکن شَیخ کی محبت اپنے مقام و ظرف کے مطابق ہوتی ہے اور پھر کون یہ سمجھا سکتا ہے کہ شَیخ کے قلب میں انوارات کا سیلِ رواںان قلوب کی جانب کس طرح امڈتا ہے جس قلب کی طلب ہی وہ فیض بے کراں ہو۔ہاں جاتے جاتے جہاںمجھے اپنے فیضانِ قلب کا امین بنا گئے ہیں وہاں اپنے مریدوں کو بھی میرے لئے مراد کر گئے ہیں جہاں مجھ خطا کار کو برکاتِ رسالت کے تسلسل کا حصہ بنا گئے ہیںوہاں آپ سب کا درد بھی عطا کر گئے ہیں۔آپ سب میرے پاس ان کی وہ امانت ہو جو مجھے اپنی حفاظت کے لئے ہر لمحہ چوکنا اور لرزہ براندام رکھتی ہے۔ آپ سب میری دعائوں کا حصہ ہی نہیںبنے دل کے مکیں اور گویا وجود کا حصہ ہوگئے ہو۔ میرے پاس یہی ان کی سب بڑی وراثت ہے۔‘‘

جواب دیں

Back to top button