لواخ… ایک تریاق

وہ ’’اختراع‘‘ سے چلا، ’’ارتفاع‘‘ تک پہنچا۔ یہاں اس نے ’’خواب دان‘‘ اٹھایا اور پھر ’’جاگے ہیں خواب میں‘‘ کی کیفیت سے گزرتا گزرتا ’’جندر‘‘ تک آیا۔ وہ یہاں رکا نہیں بلکہ مسلسل آگے بڑھتا چڑھتا رہا اور اب اس نے ’’لواخ‘‘ روشن کر دیا۔ ’’لواخ‘‘ تک اس اوکھے مگر سوہنے من موہنے سفر میں ’’جندر‘‘ اس کے ساتھ رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ وہ محض ’’جندر‘‘ نہیں بلکہ اپنے پہاڑوں، کوہساروں، وادیوں، جھرنوں، ندیوں، لوگوں اور تہذیب کو گٹھڑی صورت باندھے ساتھ ساتھ لئے چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں اس کے قدم اپنی پتھریلی باڑی میں مضبوطی سے گڑے ہیں وہاں اس سے اور اس کے کہے لکھے سے اپنی ماں مٹی کی بوباس بھی کچھ یوں لہک مہک رہی ہے کہ اس کے زمین زاد ہونے پر فخر سا ہونے لگتا ہے۔ وہ دیکھنے میں گم سم، بولنے میں کم گو لگتا ہے لیکن اس کی تحریر و تخلیق اس کے ’’پُرگو‘‘ ہونے کے راز کو یوں افشاں کردیتی ہے کہ اس کی انفرادیت کی چمک سات پردوں میں بھی صاف دکھتی ہے۔
’’لواخ‘‘ کوہساروں میں رہنے بسنے والے ’’پہاڑ کرداروں‘‘ کی کہانی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ابتداء سے انتہاء تک سچی اور حقیقی ہے… اتنی سچی کہ اسے دلچسپ اور سچا ثابت کرنے کے لئے کسی گوٹہ کناری کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ اگر ایسی کوئی ’’صورت‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ درپیش ہوتی تو وہ خلاق ذہن اسے یوں سجا لشکا سکتا تھا کہ دیکھنے سننے و پڑھنے والا حیران رہ جائے لیکن اس نے اپنی ہنرمندی سے سچ کو اس سادگی و سلاست سے لکھا کہا کہ ہرسو چانن ہی چانن ہو گیا۔ یہ کوہسار ابن کوہسار ابن کوہسار کا ایک ایسا قصہ ہے جو ’’عظیم‘‘ بھی ہے اور ’’لذیز‘‘ بھی تو ساتھ ہی ساتھ مری کے مضافات، گلیات، حویلیاں اور نواحی خطے کے رسم و رواج اور عمومی مزاج کا آئینہ بھی اور آئینہ دار بھی۔
یہ ان علاقوں میں صدیوں سے رہنے بسنے والے دو قبائل کی ایسی داستان ہے جو اپنی زمین، روایات اور تاریخ سے محبت کا مرثیہ بھی ہے اور قصیدہ بھی۔ یہ بہادری، جرأت، حوصلے اور معاملہ فہمی کا بیان بھی ہے اور مشکلات، مصائب اور زندگی اور موت کا نوحہ بھی لیکن کمال یہ ہے کہ اسے لکھتے کہتے یہاں کے پہاڑ حوصلہ وسنیکوں کی طرح اس کا قلم لرزا لڑکھڑایانا اس کا ہاتھ کانپا۔ اس نے پورے اعتماد و اعتبار سے اپنے اجداد کی داستان یوں بیان کی کہ کہیں بھی وہ ’’داستان گو‘‘ نہیں بنا لگا بلکہ لحظہ لحظہ وہ اس لہو رنگ جدوجہد کا حصہ معلوم ہو رہا ہے۔
حسن علی خان ہوں یا سید محمد خان، خانی زمان خان ہوں یا بازخان، یہ سارے کردار حقیقی ہیں اور مشکل وقت میں بہادری کے وہ جوہر دکھا چکے کہ زمانہ ان کی شجاعت کا معترف ہے۔ اسی طرح آزاد خان ہویا سکندر، اور دوسرے کہے ان کہے کردار، پہاڑوں کی تاریخ ہمیشہ سے ایسے بے بدل کرداروں کی پالنہار رہی ہے جو اپنی سخت پتھریلی دھرتی پر اپنے ہونے کے نشان یوں ثبت کر جاتے ہیں کہ مدت مدید تک تیز بارشیں، آندھیاں طوفان، برف و باراں چاہیں بھی تک ان کو مٹا نہیں سکتے، کسی اور کی بساط ہی کیا؟؟
مقامی تاریخ سے شناسا صاحبان فکر و فن کی گواہی ہے کہ یہ کہانی سچ ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس کہانی کا آج کا تخلیق کار جس نے روشنائی سے اسے کاغذ پر رقم کیا، حسن علی خان کے کڑال قبیلے کا وہ زندہ کردار ہے جس نے وقت کے مطابق اپنے ہونے کا دلنشین اظہار کیا ہے۔ حسن علی خان مقامی تاریخ کا وہ بے بدل کردار ہے جس نے اپنے حوصلے، جرأت اور تدبر سے اپنے لوگوں کو یوں باہم جوڑا کہ وہ مدت تک ناقابل تسخیر رہے۔ اس تاریخ کی خوش بختی ہے کہ اسے سید محمد خان اور خانی زمان خان ملے اور پھر بازخان سے تعلق نسبت رہی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پہاڑوں میں رہنے بسنے والے ان پہاڑ لوگوں نے طویل عرصے تک طاقتور حملہ آوروں کا ڈٹ کر ناصرف مقابلہ کیا بلکہ انہیں پسپا بھی کیا اور پورے قد و وقار کسے ساتھ اپنی دھرتی پر جیئے۔ ان لوگوں نے سکھوں اور دوسرے حملہ آوروں کو بار بار شکست دی۔ ’’جنگ ناڑہ‘‘ ان لوگوں کی جرأت کا وہ نشان ہے جو رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ بدلتے وقت کے ساتھ بدلتے دشمنوں کا مقابلہ یہ لوگ پوری بہادری سے کرتے رہے، لیکن پھر ان کا پالا وقت کے ایسے حاکموں ناظموں سے پڑا جنہوں نے اپنا نظام چلانے،بچانے ’’ناظم‘‘ ڈھونڈے پالے اور ایسے ہی سہاروں سے یہاں حکومت کرتے رہے۔ یہی وہ ’’ہتھیار‘‘ تھے جنہوں نے پہاڑ لوگوں کو کبھی کبھی نقصان پہنچایا۔
کہانی وقت کی رفتار کے ساتھ خوبصورتی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ وہی دیہات، وہی کھیتی باڑی، وہی رہن سہن، وہی سوچ و فکر، وہی کھیل تماشے، وہی جنگ جدل، وہی شجاعت بہادری جو اس تہذیب کا خاصہ رہا ہے، اس کہانی کا تانا بانا ہے۔ بیتے سمے کے ساتھ تعلیم کی ضرورت کا احساس ’’سکندر‘‘ کی مانگل روانگی سے اظہار پاتا ہے جبکہ تاریخ کے ساتھ ہر عہد میں ’’مہتاب سنگھوں‘‘ کی طرف سے ہونے والے ہاتھ کی سمجھ پرکھ اور جواباً خانی زمان خان کا ’’نوشتہ‘‘ ایک بے حد مثبت روّیے کا خوبصورت امتیاز ہے جو وقت کے بہتے دھاروں کے ساتھ آگے بڑھنے کا راستہ سمجھا بتا رہا ہے۔ کہانی میں خانی زمان خان اور اس کے بھائی بندوں کا طرزِعمل روایتی دیہاتی سوچ کا وہ ململیں بیان ہے جو ان سادہ و سچے لوگوں نے ہمیشہ سینت سنبھال رکھا ہے۔ معرکہء مری میں ناکامی، منجری و جاسوسی، کسی اپنے کی بیوفائی، بائیس جان نثاروں کا بہادری سے موت کا سامنا کرنا اور اسے بڑھ کر گلے لگانا، انگریزوں کا بستیاں اجاڑتا جلانا، ’’سکندر‘‘ کا بے گھر درہونا وفا شعار عورتوں کا خود کو مار دینا… یہ سب سچے جذبوں کے امین لوگوں کی کرداری خصوصیات ہیں جو حقیقی عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ ’’سکندر‘‘ کے ہاتھوں ’ناظم‘ کا قتل ایک فطری ردِعمل ہے۔ ازاں بعد سکندر کا مخصوص حالات میں ’بری امام‘ اور پھر دادا کے مقبرے پر ’’جوگ‘‘ لینا بھی وقت، حالات اور ان کے باعث بدلتی سوچ کا وہ نوحہ ہے جو انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
’’لواخ‘‘ اس علاقے میں ہر عہد میں ’’جنگ‘‘ کا نشان رہا ہے لیکن اس کے معنی بدلتے رہے ہیں۔ پہلے یہ حملے کا سائرن تھا، پھر اس نے معنی بدلے اور آخر میں اسے فتح کا نشان بنانے کا فیصلہ ہوا۔ وقت نے شکست سے دوچار کیا تو ’’لواخ‘‘ بجھ گیا۔ مدتوں بعد سکندر نے اسے روشن کیا تو یہ اپنے اندر جاری جنگ اور ایک دولت و خوف سے ’بخیرنجات‘ کا ذریعہ بنا۔ ’’لواخ‘‘ روشنی کا استعارہ ہے اور پہاڑوں پر ’’روشن لواخ‘‘ اور پھیلتی روشنی، جرأت و بہادری آمیز زندگی کی علامت ہے۔
اس کہانی کا تخلیق کار جو نام کا ’’اختر‘‘ ہے تو کام کا بھر ’’اختر‘‘ ہی ہے کہ اس نے خود کو روشنی کی علامت ثابت کرتے ہوئے اپنی تاریخ کے تاباں کرداروں کو یوں مزید نور آمیز کیا ہے کہ ایک کہکشاں سی دمکتی نظر آتی ہے۔ اختر رضا سلیمیؔ نے کہانی کو اتنی خوبصورتی، سادگی اور روانی سے آگے بڑھایا ہے جیسے ناڑہ کے مقام پر گرتا قدرتی آبشار اور اس کا نیچے کی طرف بہتا شفاف ٹھنڈا پانی۔ کہانی کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ شاید ہی کوئی اوکھی اصطلاح یا لفظ کہیں لکھا برتا گیا ہو۔ کہانی کے تمام کردار حقیقی ہیں اور تمام مناظر آج بھی موجود۔ اختر رضا سلیمیؔ نے ان کرداروں کو اتنی خوبصورتی سے ’پینٹ‘ کیا ہے کہ پڑھتے ہوئے انسان انہیں اپنے سامنے چلتے پھرتے اور روبہ عمل محسوس کرتا ہے۔ کہانی کا ’’لوکل‘‘ اختر رضا سلیمیؔ کا جانا پہچانا ہے کہ وہ اس مٹی کا جم پل ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے ’’منظرنگاری‘‘ کچھ ایسے کی ہے کہ وہ پہاڑ دیہات، وہی زندگی حیات، وہی تمدن معاشرت انسانی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔
’جندر‘ پہاڑی معاشرت کا ایک اہم حوالہ ہے۔ اختر رضا سلیمیؔ قبل ازیں ’جندر‘ کے سرنامے پر ایک بہترین ناول تخلیق کر چکے ہیں۔ اب کی بار بھی اُنہوں نے جندر اور جندروئی کو کافی تفصیل سے دیکھا دکھایا ہے۔
مہتاب سنگھ ایسوں کی تاریخ دانی ایک ایسا خطرناک و قبیح عمل ہے جو ہر علاقے میں ماضی سے حال تک کے حکمرانوں کے ہاتھوں مسلسل سرزد ہو رہا ہے اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ خانی زمان خان کا ’’نوشتہ‘‘ اس زہر کے لئے تریاق ہے اور ’’لواخ‘‘ مجھے اسی تریاق کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ ہاں تیرتلوار کے بیج ’’حاجراں‘‘ کا ذکر انسانی نفسیات کا ایک اور سچ ہے۔
مجموعی طور پر ’’لواخ‘‘ ایک بہترین، مختصر اور جامع تاریخی ناول ہے جس کی بنیاد ’’کُلی سچ‘‘ پر رکھی گئی ہے۔ جلتے بجھتے ’’لواخ‘‘سے آہنی زنجیر و سلاخ تک کا سفر پہاڑی و انسانی تاریخ کا ایک المیہ ہے جس کا خوبصورت بیان کسی اختر رضا سلیمیؔ ایسے کے ہاتھوں ہی ممکن ہے، ورنہ اس معاشرے میں ’’مہتاب سنگھوں‘‘ کی کوئی کمی نہیں ہے۔
’’لواخ‘‘ کا پلاٹ بہت گھٹا گھٹایا اور سلجھا ہوا ہے۔ بے حد مرتب اور مختصر پلاٹ کی تخلیق ایک ہنروری ہے جسے تخلیق کار نے پورے سلیقے سے انجام دیا ہے۔پلاٹ اور منظر نگاری سے آگے بڑھ کر جذبات نگاری کو دیکھا جائے تو اس کی دل کھول کر تعریف کیے ہی بنتی ہے۔اختصار سے کہا جائے تو کہا جائے گا کہ’’لواخ‘‘ایک عمدہ دلچسپ اور روشنی بخش کہانی ہے۔۔۔ایسی کہانی جس کی ہمیں بہت ضرورت ہے۔