الیکشن کی آمد اور سٹاک ایکسچینج
ایم یوسف بھٹی
الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد سٹاک مارکیٹ مسلسل اوپر جا رہی ہے۔ گزشتہ روز پاکستان سٹاک انڈیکس 66 ہزار پوائنٹس سے بڑھ گیا، جس سے پاکستان کی سٹاک ایکسچینج میں ایک اور تاریخ رقم ہوئی۔ سٹاک ایکسچینج کی تیزی اسی طرح برقرار رہی تو یہ 70 ہزار پوائنٹس کو بھی کراس کر جائے گی۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے مطابق معاشی بہتری سے سٹاک مارکیٹ ستمبر سے اب تک 40 فیصد تک بڑھی ہے حالانکہ موجودہ نگران سیٹ اپ کی کارکردگی کا حصص کی خرید و فروخت سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی سٹاک مارکیٹ کا براہ راست ملکی معیشت سے کوئی تعلق ہوتا ہے، کیونکہ یہ انفرادی انویسٹمنٹ کی مارکیٹ ہوتی ہے۔ اسی لئے سٹاک ایکسچینج میں بہتری کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے۔ مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا بلکہ چند روز قبل عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود پٹرول کی قیمتوں میں پھر اضافہ کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرائے اور مہنگائی وغیرہ میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ہاں البتہ سٹاک ایکسچینج میں آنے والے بوم کا تعلق نون لیگ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کی آمد سے ضرور ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں کہ ایک طرف نون لیگ کو جتوانے کیلئے عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ نون لیگ اور میاں نواز شریف ہی اس ملک میں معاشی استحکام لا سکتے ہیں۔دوسری طرف پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو انتخابات سے آؤٹ کرنے کیلئے بلواسطہ طور پر عوام میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی مقبولیت کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پنجاب میں بننے والے انتخابی نقشے پر نظر دوڑائیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ قریباً ہر حلقے میں نون لیگ کا امیدوار تو دکھائی دے رہا ہے مگر پاکستان تحریک انصاف کا امیدوار سامنے نہیں آ پا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی نے بھی سندھ اور خیبر پختونخوا کے علاوہ پنجاب میں ابھی تک کوئی بڑا جلسہ نہیں کیا جس وجہ سے ابھی تک انتخابی ماحول میں کوئی بڑی سرگرمی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔ ہمارے ہاں دو مدمقابل امیدواروں کی گرم جوشی پر مبنی الیکشن مہم ہی اصل الیکشن ہے جو اس دفعہ مفقود ہے۔
انتخابات کے التواء کی افواہوں کا بھی زور ہے مگر چیف جسٹس آف پاکستان کا واضح موقف ہے کہ وہ انتخابات میں تاخیر نہیں چاہتے ہیں جس وجہ سے کچھ تجزیہ کار انہیں پرو نون لیگی قرار دے رہے ہیں۔
بلوچستان میں 30الیکٹیبلز کے نون لیگ میں شامل ہونے، کراچی میں ایم کیو ایم اورخیبر پختونخوا میں جے یو آئی سے اتحاد سے نون لیگ کو پنجاب میں بھی واضح واک اوور مل رہا ہے کیونکہ یا تو نون لیگ کے روایتی حریف امیدوار اپنی پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور اگر وہ تحریک انصاف میں بھی ہیں تو وہ تاحال روپوش ہیں۔تحریک انصاف کے ورکرز پر دبائو ہے اور وہ خوفزدہ نظر آ رہے ہیں۔
ایک سیاسی تجزیہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کی نااہلی کی صورت میں امکان ہے تحریک انصاف کے خفیہ امیدواروں کیلئے ووٹر الیکشن کے روز پانسہ پلٹ دیں گے اور اگر نون لیگ کو سادہ اکثریت مل بھی گئی تو تحریک انصاف کے 30 سے 40 ممبران کا یہ ممکنہ گروپ انتخابی نتائج کو تسلیم تو کرے گا مگر سال دو سال بعد دوبارہ سیاسی عدم استحکام پیدا ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس نوع کی کھڑی ہونے والی سیاسی عمارت کبھی بھی پائیدار نہیں ہو سکتی کیونکہ معیشت کی ترقی کا سیاسی استحکام سے گہرا تعلق ہے اور سٹاک ایکسچینج میں جتنی بھی تیزی آ جائے اس سے عوام کو کوئی مستقل معاشی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
پوری دنیا کی اکانومی دنیا کے 250 بڑے سرمایہ دار چلاتے ہیں اسی طرح پاکستان کی معیشت اور سٹاک مارکیٹ بھی چند کاروباری خاندانوں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے جن میں شریف خاندان بھی سرفہرست ہے۔ یوں سٹاک مارکیٹ کا یہ اچھال ایک’’ببل‘‘ ہے جو نواز شریف کو لانے کیلئے پیدا کیا گیا ہے اور ساتھ میں عدالتی ریلیف بھی دیا گیا تاکہ اس سیاسی راز کو انڈیکس کو بہتر شو کر کے چھپایا جا سکے۔ یہ نام نہاد گٹھ جوڑ ملک کی معیشت کو بہتر ظاہر کر رہا ہے مگر الیکشن کے بعد کا سیاسی عدم استحکام در حقیقت نہ صرف اکانومی کو مزید پیچھے دھکیلے گا بلکہ اس ببل کے پھٹنے سے معاشی عدم استحکام مزید گہرا ہو جائے گا۔
نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ جو کمپنیز بند ہیں ان کے شیئر ریٹ بھی اوپر جا رہے ہیں اور پاکستان کی یہ مصنوعی سٹاک مارکیٹ انڈیا اور چائنا سے بھی اوپر جاتی نظر آ رہی ہے۔ یہ مارکیٹ دس بارہ بروکرز کی اجارہ داری پر قائم ہے، وہی مارکیٹ کو اٹھاتے ہیں اور وہی مارکیٹ کو گراتے ہیں۔ انڈکس، اچھی اکانومی نہیں ہوتی بلکہ اچھی اکانومی کا انڈیکیٹر ہوتی ہے۔ اچھی اکانومی ملک کے ہر شعبے میں جھلکتی ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر یہ ٹیسٹ ٹیوب طرز کا دکھاوا ہوتا ہے کیونکہ جب کمپنیز پرافٹ ہی نہیں دے رہیں تو مارکیٹ اوپر جانے کی کوئی تک نہیں بنتی۔ اب تو عام آدمی کو بھی پتہ ہے کہ معیشتوں میں مصنوعی اتار چڑھاؤ کیسے لایا جاتا ہے اور اس کے کیا مقاصد ہوتے ہیں۔ غور کریں اسٹاک ایکسچینج میں بہتری کی وجہ سے آج سے ہفتہ پہلے آٹے کا تھیلا 2700 روپے کا تھا اور اب 2920 کا ہو گیا ہے۔
سٹاک ایکسچینج کا یہ ابال دراصل سٹہ کہلاتا ہے جو کمپنی بہادر کی مشہوری کیلئے لگایا گیا ہے۔ اس وقت بھی پیدواری صنعت کی شرح ترقی قریباً منفی شرح کی رفتار سے چل رہی ہے۔ حصص کے کاروبار میں حقیقی تیزی کے رجحان کا تعلق پیداوری صنعت میں تیزی سے وابستہ ہوتا ہے۔ پورے پاکستان میں قریباً ڈھائی لاکھ لوگ حصص کے کاروبار سے وابستہ ہیں (میوچل فنڈز والوں کو نکال کر)جو مجموعی آبادی کا صفر اعشاریہ صفر ایک فیصد بنتا ہے۔ سٹاک ایکسچینج کا ایک سادہ سا اصول یہ ہے کہ اگر بینک میں آپکا اکاؤنٹ ہے، اس کے لون ڈیپارٹمنٹ کا ایک بندہ آپ سے کہتا ہے کہ آپ کی سٹیٹمنٹ بہت تھوڑی ہے۔ آپ ایک کام کریں، پیسے نکلوا کر اگلے دن واپس جمع کرواتے رہیں، اس طرح آپ کی سٹیٹمنٹ تگڑی ہو جائے گی اور نمبر آف ٹرانزیکشنز بڑھ جائیں گے جس سے لگے گا کہ آپ بہت اچھے بزنس مین ہیں اور آپ کا لین دین اچھا چل رہا ہے اور آپکی سٹیٹمنٹ پر آپ کو کریڈٹ کارڈ اور لون مل جاتا ہے۔ آپ چھ مہینے سال کی سٹیٹمنٹ چیک کرتے ہیں تو واقعی آپکی بنک سٹیٹمنٹ بہت تگڑی بنی ہوئی ہوتی ہے کیونکہ نمبر آف ٹرانزیکشنز اور ان کی رقم بلاشبہ لاکھوں کو کراس کر رہی ہوتی ہے۔یہی حال سٹاک مارکیٹ میں چل رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ملک رجیم چینج کے آخری مراحلہ سے گزر رہا ہے۔ اور الیکشن سے پہلے یہ انڈیکس ببل اسی کا حصہ ہے۔ بظاہر ایسی کوئی معاشی سرگرمی نہیں جس کی بنیاد پر سٹاک ایکسچینج ایسی بلندی دکھا رہی ہے۔