ریاستی اداروں میں مداخلت کا ذمہ دار کون؟

پولیس کے سابق انسپکٹر جنرلز کی 7 ویں سالانہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ملک میں امن کے لئے سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر قانون سازی کرنا ہوگی۔ پولیس کو اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے کوشش کرنی ہوتی ہے، ملازمت کی نوعیت جو بھی ہو ہمیں اپنا کام ایمانداری اور پوری لگن سے کرنا چاہیے۔ آئین کے تحت کوئی فرد یا گروہ پر تشدد کارروائیوں میں ملوث نہیں ہوسکتا، کوئی بھی معاشرہ افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بلاشبہ نگران وزیراعظم کی اِن باتوں میں وزن ہے کہ ملک میں امن و امان کے لئے سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر قانون سازی کرنی چاہیے مگر دوسری طرف دیکھا جائے تو جو خرابیاں اور مسائل وقتاً فوقتاً ہمارے سامنے آتے ہیں ان کا پیچھا کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پیچھے کوئی نہ کوئی بااثر شخصیات یا سیاست دان ہوتا ہے۔ اسی لئے کسی بھی شعبے کی مثال لے لیں اُن میں یہی مسائل نظر آئیں گے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کئی دہائیوں سے سیاست دانوں نے اپنے پارٹی کے تنظیمی امور کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں میں بھی اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کا سلسلہ شروع کرچکا ہے، پہلے مرحلے میں اپنے قابل اعتماد لوگوں کو محکموں میں کھپایا جاتا ہے اور بوقت ضرورت اِن سے ناجائز کام لئے جاتے ہیں، اسی طرح منظور نظر افسران کو خوب نوازا جاتا ہے اور بوقت مشکل وہی افسران سیاست دانوں یعنی اپنے قائدین کو مشکل سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں یوں کوئی بھی محکمہ دیکھ لیں صفائی کے محکمے سے لیکر ریاست کے اہم آئینی عہدوں تک یہی حکمت عملی کارگر نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سیاست دان کسی گڑبڑ کے بعد شکنجے میں اول تو آتے نہیں اور اگر آبھی جائیں تو یہی افسران انہیں مشکل سے نکالنے میں ہر اول دستے کے طور پر کام آتے ہیں لہٰذا جب تک میرٹ پر تقرر و تعیناتیوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوگا من چاہے لوگوں کو ریاستی اداروں میں گھُسانے اور بوقت ضرورت اِن کو استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ جہاں تک پولیس کلچر کی بات ہے تو اِس کی تباہی کی وجہ بھی یہی ہے کہ دوسرے محکموں کی طرح پولیس کو بھی ہمیشہ سیاست دانوں نے اپنے ہاتھ میں رکھا اوربوقت ضرورت اپنے مخالفین کے خلاف پولیس سے ایسا کام لیا جو نتائج کے لحاظ سے لرزہ خیز ثابت ہوا۔ اقتدار میں آکر سیاسی مخالفین کی چادر و چاردیواری کا تقدس پامال کرنے کے لئے پولیس سے زیادہ موزوں محکمہ کوئی ہے ہی نہیں۔ اور جب کسی جلوس کو منتشر کرنا ہو تو پولیس اہلکار ایسا انسانیت سوز ظلم کرتے ہیں کہ دیکھنے والے پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، پولیس تھانوں میں تشدد بڑی عام بات ہے، غرضیکہ کوئی تھانہ ایسا نہیں جہاں کوئی شریف شہری حصول انصاف کے لئے جاتے ہوئے خوفزدہ نہ ہو، کیونکہ اگر دوسری طرف طاقت ور ہو تواُلٹا وہ خود جیل میں جاسکتا ہے۔ بڑے سیاست دان بالخصوص وڈیروں کے ڈیرے تھانے ہیں جہاں پولیس افسران خود حاضری دیتے ہیں اور بحکم آقا ظالم یا مظلوم کی تحقیق کئے بغیر جس پر اُنگلی رکھی جاتی ہے اِس کو نشان عبرت بھی بناتے ہیں اور ایسی دفعات لگاتے ہیں کہ وہ بیچارہ زندگی بھر جیل میں سڑتا رہے مگر جہاں ریلیف دینا مقصود ہو تو استغاثہ اتنا کمزور لکھا جاتا ہے کہ چشم دید گواہ بھی جھوٹے ثابت ہوجاتے ہیں اور ملزمان چند ایک پیشیوں کے بعد باہر نکل آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ریاست کے ہر سربراہ نے پولیس کلچر تبدیل کرنے کی بات کی مگر آج تک کوئی پولیس کلچر تبدیل نہیں کرسکا کیونکہ سیاسی مخالفین ہوں یا پھر دشمن، سبھی کو مزہ چکھانے کے لئے پولیس کو بطور ہتھیار استعمال کیاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آ ج تک پولیس کا محکمہ بدعنوانی میں سرفہرست رہا ہے اور عالمی سطح پر بھی پولیس کی یہی ساکھ ہے، بدمعاش اور غنڈے پولیس کو نکیل بھی ڈالتے ہیں اور خوفزدہ بھی کرتے ہیں مگر عام شہری جیل کے نام سے ہی خوفزدہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کرپشن کے خلاف کام کرنے والے محکموں کو دیکھ لیں، جو سابق برسراقتدار آتا ہے پچھلے حکمران اوراِس کی ٹیم کےخلاف کرپشن کی تحقیقات کرنے والے اداروں کو چڑھادیتا ہے جو بہرصورت کچھ نہ کچھ ایسا نکال لاتے ہیں یا پھر خود ساختہ بنالیتے ہیں تاکہ مخالفین عدالتوں، تھانوں اور کچہریوں میں رہیں اور سیاست دان اقتدار کا مزہ لیں، پھر وہی زیر عتاب سیاست دان اقتدار میں آکر سیاسی انتقام کی اسی روش کو اپناتا ہے پولیس سمیت دوسرے اداروں کو سیاسی مخالفین کے پیچھے لگادیتا ہے یوں وہ زیر عتاب آجاتے ہیں۔ پس اِن خرابیوں کا دھاگہ کھینچیں تو دوسرا سِرا سیاست دانوں کی طرف ہی ہوتا ہے اِس کی ایک وجہ جو ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست دانوں کے پاس قابل عمل منشور ہوتا ہے اور نہ ہی اِن کے کریڈٹ میں ایسا کوئی کام، جس کی بنیاد پر وہ انتخابات میں اپنے ووٹرز کو قائل کرسکیں لہٰذا عامۃ الناس کے سامنے کج بحثی اور سیاسی مخالفین کے خلاف اداروں کو استعمال کرکے ایسے ہتھکنڈوں کا سہارا لیا جاتا ہے تاکہ انہیں میدان خالی ملے اور وہ بغیر سیاسی مخالفین کے، میلہ لوٹ لیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی اداروں کی رپورٹس میں ہمارے کسی ایک محکمے کی کارکردگی کو قابل تعریف نہیں کہا جاتا بلکہ ہم انصاف کی فراہمی میں بھی پوری دنیا میں ٓاخری نمبروں پر آتے ہیں۔ وطن عزیز کو آزادی حاصل کئے اسی سال ہونے والے ہیں مگر ہم نے ادارہ جاتی اصلاحات کی بجائے ادارہ جاتی خرابیاں کرکے اپنی اور اپنے ملک کی ناموس کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اِس لئے ضروری ہے کہ سیاست دان فکس میچ کھیلنے کی بجائے برابری کی سطح پر میچ کھیلیں اور اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے انہیں دور کریں، مہذب دنیا بہت آگے جاچکی ہے، اقوام نے ایسی ترقی کی ہے کہ وہ غریب ملکوں کو امداد دینے کے منتظر رہتے ہیں مگر ہم شرمندگی اور بے حسی کی چادر اوڑھ کر ہاتھ پھیلاتے شرمسار بھی ہوتے ہیں مگر سدھار کی طرف جانے کی ہمت نہیں کرتے۔ یہاں کہ ہم پولیو کے قطرے بھی بل گیٹس سے مفت لیکر اپنے نونہالوں کو پلاتے ہیں۔ ہم واقعی قابل رحم حالت میں ہیں مگر افسوس کہ قابل رحم قوم کا سربراہ کہلانے والے اِس کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتے اور وہ سب کچھ کرتے ہیں جو اُن کے مفاد میں ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف پولیس ہی نہیں تمام محکموں کی یہی صورت حال ہے، خرابیوں جڑ پکڑ چکی ہیں، انصاف کے پیمانے طاقت ور اور کمزور کے لئے الگ الگ مقرر ہیں ، غریب قابل گرفت اور امیر قانون اور ہر طرح کی پابندی سے خود ساختہ مستثنیٰ ہے اور یہی خرابیاں ہمارے ہر زوال کا باعث ہیں۔