
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سارا انعام قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ نواز امیر کی سزا معاف کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو 14 دسمبر کو سنایا جائے گا۔
سماعت کے دوران عدالت میں ایک لمحہ وہ آیا جب وہاں موجود ہر شخص اشک بار تھا۔ یہ موقع تھا جب مقتولہ سارا انعام کے والد بیٹی کے آخری لمحات میں اسکی بے بسی کو بیان کرکے آبدیدہ ہوگئے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں سیشن جج ناصر جاوید رانا نے سارہ انعام قتل کیس کی سماعت کی، ملزمہ ثمینہ شاہ کے وکیل نثار اصغر نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمہ ثمینہ شاہ پر الزام ہے کہ وہ جائے وقوع پر موجود تھیں اور انہوں ملزم کی معاونت کی اور ملزمہ پر الزام صرف سارہ انعام کے قتل کی معاونت تک کا ہے، 342 کے بیان میں ملزمہ ثمینہ شاہ کی معاونت کا کوئی ثبوت نہیں۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں سیشن جج ناصر جاوید رانا نے سارہ انعام قتل کیس کی سماعت کی، ملزمہ ثمینہ شاہ کے وکیل نثار اصغر نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمہ ثمینہ شاہ پر الزام ہے کہ وہ جائے وقوع پر موجود تھیں اور انہوں ملزم کی معاونت کی اور ملزمہ پر الزام صرف سارہ انعام کے قتل کی معاونت تک کا ہے، 342 کے بیان میں ملزمہ ثمینہ شاہ کی معاونت کا کوئی ثبوت نہیں۔سیشن جج ناصر جاوید رانا نے مقتولہ سارہ انعام کے والد انعام الرحیم کو روسٹرم پر بلایا تو مقتولہ کے نے کہا کہ میرے 3 بچے ہیں، سارہ انعام میری فیورٹ بچی تھی، ہم شاہ نواز امیر اور سارہ کی شادی سے خوش نہیں تھے مگر مجبور ہو گئے تھے، شاہ نواز امیر کی والدہ کو میری بیٹی کی آواز کیوں نہیں گئی، وہ ضرور چیخی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ شاہ نواز امیر اور ثمینہ شاہ نے جان بوجھ کر وقت پر پولیس کو اطلاع نہیں دی، یہ کہتے ہوئے انعام الرحیم شدید آبدیدہ ہو گئے۔