آج کے کالمراؤ غلام مصطفی

حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی!

رائو غلام مصطفیٰ

کاروان حیات کا نظام ہی ایسا ہے ۔ جسے آنا ہے اسے بہرصورت جانا ہے۔ جب سے دنیا بنی ہے۔ روزاول سے یہ سلسلہ جاری ہے اور روز ابد تک رہے گا مگر ان آنے اور جانے والوں کی داستان حیات تو کجا نقش کہن تک نہیں ملتا مگر اس کاروان میں کچھ لوگ ایسے بھی آتے اور پھر جاتے ہیں کہ ان کی زندگی کا ہر نقش تاریخ کے صفحات پر رقم ہوجاتا ہے اور اقوام کیلئے مشعل راہ قرار پاتا ہے ایسے ہی افراد میں حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی کا شمار ہوتا ہے ۔
پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی علیگ مرحوم نے اپنی زندگی کے شب وروز فرنگی حکمرانوں سے آزادی اور ایک آزاد مملکت اسلامی کے قیام کی جدوجہد میں گذارے اور آزادی کے اپنے اس خواب کی تعبیر بھی دیکھی پھر اس مملکت اسلامی کی تعمیر واستحکام کیلئے بھی بے مثال جدوجہد کی ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے۔پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم ہمہ جہت،ہمہ عہد آفرین شخصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ بیک وقت بے مثال خطیب،بے بدل ادیب، نڈر صحافی،بلند پایہ شاعر،مایہ ناز طبیب، دانشور،ممتاز سماجی وسیاسی کارکن،تحریک قیام واستحکام پاکستان،تحریک تحفظ ختم نبوت تحریک نظام مصطفی کے کارکن تھے۔ انہوں نے حق پرستوں کی طرح زندگی گزاری اور ان کی زندگی کا عنوان اسلام،پاکستان اور طب مشرقی ہے۔ جس کام میں بھی حصہ لیا اس کا مقصد واحد اسلام کی سربلندی وسرفرازی رہا۔ حالات واقعات،مسائل و مشکلات ان کے پایہ استقلال میں لغزش پیدا نہ کر سکے۔ علم وادب کا میدان ہویا طب وصحت کا، تحریک پاکستان ہو یا استحکام پاکستان،ختم نبوت کی تحریک ہو،یا نظام مصطفی کی،شعر و شاعری ہو یا سماجی بہبود کی سرگرمیاں ہو ں یا قومی خدمت کا کوئی مسئلہ ہو وہ ہر جگہ سچے جذبوں اور ہمہ وقت مصروف عمل اور بے لوث جذبوں سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ حکیم عنایت اللہ نسیم کا تعلق ایک متوسط، دین دار اور ممتاز طبی خانوادہ سے تھا۔ ان کی ولادت مردم خیز سرزمین سوہدرہ میں ہوئی ان کے چچا حکیم عبدالرحمن اپنے عہد کے نامور طبیب تھے۔ دوران تعلیم ہی با با ئے صحافت مولانا ظفر علی خان سے تعلق قائم ہوگیا۔ میٹرک کا امتحان میں ہاء سکول وزیرآباد سے پاس کیا تو مولانا ظفر علی خان کے ایما پر مزید تعلیم کیلئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے۔ جہاں سے طب کا پانچ سالہ ڈگری کورس امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی ان دنوں سیاسی وملی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ آپ کا دور شباب حریت وآزادی سے عبارت ہے حکیم عنایت اللہ نسیم ان طلبہ کے سرخیل تھے جو قیام پاکستان کی جنگ لڑ رہے تھے۔ علی گڑھ میں جب آل انڈیا مسلم سٹودنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا تونوجوان عنایت اللہ تا سیسی اجلاس میں شریک تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وہ طلبہ جو آل انڈیا مسلم لیگ کے لکھنوسیشن 1937 ،پٹنہ سیشن 1938 اور اقبال پارک لاہور سیشن 1940 میں شریک ہوئے ان میں نوجوان عنایت اللہ نسیم شامل تھے۔ 1937 کے بجنور کے ضمنی انتخابات میں مولانا شوکت علی اور مولانا ظفر علی خان کے ہمراہ طلبہ علی گڑھ کے ساتھ کام کیا۔ فسادات بہار میں بیگم سلمیٰ تصدق حسین کے ساتھ خدمات سرانجام دیں۔ 1946 ء کے انتخابات جو ال انڈیا مسلم لیگ نے قیام پاکستان کے نام پر لڑے میں نواب زادہ لیاقت علی اور کنور اعجاز کے حلقہ مظفر نگر میں مسلم لیگ کی جانب سے ڈیوٹی کی۔ تحریک پاکستان میں مولانا ظفر علی خان اور ابوسعید انور کے ہمراہ کام کیا۔ آپ کو 1987 میں حکومت پاکستان کی جانب سے اس وقت کے وزیراعلی میاں نواز شریف نے تحریک پاکستان گولڈ میڈل دیا۔ پاکستان سے محبت ان کا جزو ایمان تھاحکیم عنایت اللہ نسیم یہی وجہ ہے کہ وہ نظریہ پاکستان کے سچے سپاہی تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ وطن ہم نے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ ہم نے آزادی کی نا قدری کی جس کی سزا سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں ملی ہے۔ پاکستان کی بقا و تحفظ نظریہ پاکستان میں ہے۔ ہم نے عطیہ ربانی کی قدرنہ کی اور قائد کی امانت میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اسلام پاکستان اور طب کے حوالے سے جب کوئی مسئلہ ہوتا وہ تحریروتقریر دونوں صورتوں میں سامنے آجاتے اور رہنمائی کرتے۔ آپ مولانا ظفر علی خان کے خصوصی مداح تھے،ان کے رفیق تھے۔ مولانا ظفر علی خان کے انتقال کے بعد وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے ظفر علی خان کے فکرونظر کے چراغ کو جلائے رکھا۔ مرکزیہ مجلس ظفر علی خان قائم کی۔ ہر سال ان کی برسی کا اہتمام کرتے، ان کے افکار کوعام کرنے کیلئے شہر شہر جاتے، تقاریرکرتے،اخبارات و رسائل میں ہر سال نیا مضمون شائع کرواتے۔ ان کی شخصیت پر قائداعظم کے سیاسی افکار،علامہ اقبال کے فکر وفلسفہ،مولانا ظفر علی خان کے جذبوں اور ولولوں کی گہری چھاپ تھی۔ ان کی تحریریں، ان کے گہرے سیاسی شعور اور عمیق فکر پر دلالت کرتی ہیں۔ اسلامی شعائر و روایات کے پابند اوراور ان کی بے حرمتی کسی طور پر برداشت نہ کرتے۔ عشق رسول ان کا خاص وصف تھا ۔
انجمن حمایت اسلام لاہور کی جنرل کونسل،مجلس کارکنان تحریک پاکستان کی مجلس عاملہ،مجلس محمد علی جوہرکی مجلس عاملہ کے ممبر،مرکزی مجلس ظفر علی خان کے بانی و صدر،طبیہ کالج حمایت اسلام لاہور کی کمیٹی کے ممبر رہے اور نیشنل کونسل فار طب کے ممبررہے کنٹرولر امتحانات اورچیئرمین امتحانی کمیٹی بھی رہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طبیہ کالج اولڈ بوائز کے سیکرٹری جنرل رہے۔ اتنی مصروف زندگی کے باوجودباقاعدہ مطب کرتے۔ طب کی دنیا میں قیادت کے درجے پر فائز تھے اور شہید حکیم محمد سعید کے رفیق خاص تھے۔ اخبارورسائل میں ملکی و ملی مسائل پر ان کی تحریریں باقاعدگی سے ان کی زندگی میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کی معروف عالم تصانیف میں ظفرعلی خان اور ان کا عہد ہے جو مولانا ظفر علی خان کی خدمات اور شخصیت کا احاطہ نہیں کرتی بلکہ ان کے عہد کی تاریخ بھی ہے جسے عینی شاہد نے لکھا ہے اور جو اس عہد کی چلتی پھرتی تاریخ تھے پھر قائد اعظم محمد علی جناح،علی گڑھ کے تین نامور فرزند،رسول کائنات،طبی فارما کوپیا،جدید و قدیم طب کا موازنہ،پھلوں وسبزیوں سیعلاج بھی شہرہ افاق تصانیف ہیں – آپ9 دسمبر 1994 ء کو چند روزہ علالت کے بعد جمعہ کی شام انتقال کرگئے۔ آپ کی نماز جنازہ حافظ احمد شاکر بن عطا اللہ حنیف نے پڑھائی۔ آپ کو اباؤ اجداد کے پہلو میں قبرستان ککے زئیاں سوہدرہ سپرد خاک کیا گیا مگر خوشی کا مقام ہے کہ ہمارے دوست اور ان کے فرزند حکیم راحت نسیم سوہدروی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوے علم وادب اور طب کے میدانوں میں نام پیدا کیا ہے اور وہ اپنے والد کے صیح جانشین ثابت ہوے نیز ان کے مسودوں کی اشاعت کیلئے مصروف رہتے ہیں ۔

جواب دیں

Back to top button