کسانوں کیلئے یوریا کھاد کی منصفانہ تقسیم کا مسئلہ

ان دنوں کسانوں کو یوریا کھاد کی کم دستیابی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے کسان بہت پریشان ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی ترقی کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر ہے لیکن کسان برادری یوریا کھاد کی غیر متوازن تقسیم کی وجہ کافی پریشانی میں مبتلا ہے۔ کھاد کی غیر قانونی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے لاکھوں کسانوں کی روزی روٹی کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ کسانوں کو قریباً 60 لاکھ ٹن کی طلب کے مقابلے میں 67 لاکھ ٹن کی سالانہ پیداواری صلاحیت کے باوجود یہ اہم وسیلہ کھلی منڈی تک پہنچتے پہنچتے کسانوں کی قوت خرید سے تجاوز کر جاتا ہے۔ ماہرین نے کھاد کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتائج کو پاکستان کیلئے انتہائی سنگین قرار دیا ہے یہ صورت حال اس وقت خاص طور پر ربیع کے موسم میں زراعت کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے جب کسانوں کو بوائی کے بعد کھاد کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کھاد کی ذخیرہ اندوزی مافیا کی مذموم سرگرمیاں اس مسئلے کو مزید بڑھا سکتی ہیں، ذخیرہ اندوز مارکیٹ میں ہیرا پھیری اور مصنوعی طور پر قلت پیدا کرتے ہیں۔ اخباری رپورٹوں میں بھی کھاد کی قیمتوں میں پریشان کن اضافے کا انکشاف ہوا ہے، جس میں 50 کلو یوریا کھاد کی بوری صرف ایک ہفتے کے اندر5ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ قیمتوں میں یہ اضافہ پہلے سے ہی مہنگائی کے ستائے ہوئے کسانوں پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال سکتا ہے، جس سے ان کی زرعی پیداواری صلاحیت اور معاشی استحکام کو خطرہ لاحق ہوگا۔
تاریخی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی آزادی کے آغاز ہی سے زراعت معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھی، جو کہ بنیادی طور پر دیہی علاقوں میں پچاسی فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتی تھی۔ تاہم مسلسل زرعی چیلنجوں نے چالیس فیصد سے زیادہ افراد کو اپنی زمینیں چھوڑنے اور شہری علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ قابل کاشت زمین میں بتدریج کمی نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، جس سے غریب کسانوں کا بیج، کھاد اور ڈیزل جیسے ضروری وسائل پر انحصار بڑھ گیا ہے۔
اگر کسانوں کو کھاد کی بروقت اور منصفانہ تقسیم کو یقینی نہیں بنایا گیا تو پاکستان کو زرعی پیداوار میں کمی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، پاکستان زرعی شعبے کے فروع کیلئے سالانہ خاطر خواہ زرمبادلہ خرچ کرتا ہے لیکن اس کے اثرات کسانوں تک بہت کم ہی پہنچتے ہیں۔ یہ خبر خوش آئند ہے کہ نگراں وفاقی حکومت کی طرف سے دو لاکھ میٹرک ٹن یوریا درآمد کرنے کا حالیہ فیصلہ صورتحال کو قابو کرنے کی فوری عکاسی کرتا ہے۔ تاہم اہم نکتہ صرف درآمد میں نہیں بلکہ کھاد کی بروقت، منصفانہ اور شفاف تقسیم کے نظام کو یقینی بنانے میں مضمر ہے۔
کسان برادری کے ان اہم خدشات کو دور کرنے کیلئے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے، اس سلسلے میں کچھ تجاویز ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
کھاد کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کیلئے درآمد شدہ یوریا کاشتکاروں میں مساوی طور پر تقسیم کیا جانا چاہیے۔ شفاف تقسیم کے طریقہ کار کے قیام کیلئے وفاقی اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان باہمی تعاون کی کوششیں اہم ہو سکتی ہیں۔
کھاد کی قیمتوں پر قابو پانے کے اقدامات بھی بہت ضروری ہیں۔ ذخیرہ اندوزی مافیا کے ذریعہ کسانوں کے استحصال کو روکنے کیلئے قیمتوں پر قابو پانے کے موثر اقدامات کا نفاذ بھی ضروری ہے۔ اس میں مارکیٹ کی قیمتوں کی کڑی نگرانی اور قیمتوں میں بلاجواز اضافے کو روکنے کیلئے حکومتی سطح پر فوری مداخلت بھی کار آمد ہوسکتی ہے۔
پائیدار زراعت کیلئے حکومتی سپورٹ بہت ضروری ہے، اس سلسلے میں عرض ہے کہ حکومتی سطح پر پائیدار زرعی طریقوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور کھاد کے موثر استعمال کے بارے میں کسانوں میں آگاہی مہم شروع کی جائے۔ یہ اقدام کسانوں کیلئے زیادہ سے زیادہ پیداوار کو یقینی بنانے اور دستیاب وسائل کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ زرعی انفراسٹرکچر اور سہولیات کو اپ گریڈ کرنے سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ضروری وسائل کیلئے بیرونی عوامل پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے۔
زراعت کی ترقی کیلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسانوں کو بااختیار بنایا جائے۔ اور ان کو بااختیار بنانے کیلئے کسان پالیسی تشکیل دی جائے اور انہیں ضروری وسائل، مہارت اور مدد فراہم کی جائے تاکہ وہ زرعی طریقوں کے بارے میں بہتر فیصلے کر سکیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاکستان کے زرعی شعبے کا مستقبل یوریا کھاد جیسے اہم وسائل کی منصفانہ تقسیم پر منحصر ہے۔ یہ صرف کسانوں کی مانگ کو پورا کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس بات کو یقینی بنانا بھی بہت ضروری ہے کہ معیشت کی لائف لائن کو ڈوبنے سے بچایا جائے۔ کسانوں کو ترقی کی منازل طے کرنے کیلئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ انہیں حکومت کی طرف سے مکمل سپورٹ اور تعاون حاصل ہو۔ زرعی شعبے کے فروع کیلئے جدوجہد کرنے والے کسانوں کی حالت زار پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کسانوں کے جائز مطالبات کو منظور کیا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے زرعی منظر نامے کیلئے ایک پائیدار مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے اب عمل کرنے کا وقت آگیا ہے۔ کیا کھاد کی منصفانہ تقسیم کے اس سنجیدہ مسئلے پر متعلقہ حکام خود کو جھنجھوڑنے کی زحمت گوارا کریں گے؟
(رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، آپ اردو، انگریزی اور کھوار میں لکھتے ہیں۔)
rachitrali@gmail.com