آج کے کالممحمد نورالہدیٰ

یتیم کی کہانی

محمد نور الھدیٰ

وہ فیصل آباد کے دیہات 78 ج ب میں غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن سکول کا طالبعلم تھا۔ بظاہر سمائل چہرے پر بکھیرے 10 سالہ معصوم سا بچہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ میں نے اسے ونٹر پیکیج دیا تو رونے لگ گیا۔ الگ لے جا کر وجہ پوچھی۔ وہ اس چھوٹی سی عمر میں بھی نہایت حساس واقع ہوا۔ اس کی ہچکی بندھ گئی۔ وہ جواب نہیں دے پا رہا تھا۔ میں نے اس سے والدین کے متعلق پوچھا۔ بتانے لگا کہ اس کے والد کی دو سال قبل وفات ہو چکی اور والدہ لوگوں کے کپڑے سیتی ہے۔ میں نے اس کا دل بہلانے کیلئے اس کے شوق اور روز مرہ روٹین کے متعلق پوچھا۔ کہنے لگا کہ وہ کرکٹ کھیلنے کا شوقین ہے اور فخر زمان اس کا پسندیدہ کھلاڑی ہے۔ اس کے گھر نہ موبائل ہے نہ ٹی وی، جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ فخر زمان کی بیٹنگ دیکھنے سے محروم رہتا ہے۔ سکول سے فراغت کے بعد ماں کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ ہوم ورک کرتا ہے اور وقت ملے تو دوستوں کے ساتھ کھیلنے چلا جاتا ہے۔ لیکن کھیلنے کا موقع اسے کم ہی ملتا ہے۔ نم آنکھوں کے ساتھ ونٹر پیکیج وصول کرتے ہوئے اس نے کہا کہ کاش آج میرے والد زندہ ہوتے تو وہ کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہونے دیتے۔ اس کا کہنا تھا کہ آج جو یونیفارم غزالی سکول کے آرفن سپورٹ پیکیج کے تحت وصول کر رہا ہے۔اگر والد زندہ ہوتے تو اسے خود بازار لے جا کر خرید کر دیتے۔
ایسے ہی ایک اور بچی کو جب ونٹر پیکیج دیا تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔ کہنے لگی کہ نیا سویٹر پہنے گی تو سردی کے اثرات سے محفوظ رہے گی۔ یہ بچی بھی والد کی شفقت سے محروم تھی۔ وہ بڑی ہو کر فوج میں جانا چاہتی ہے اور پُرعزم ہے کہ اپنی محرومیوں کو خود پر حاوی نہیں ہونے دے گی۔
اسی طرح مذکورہ مقصد کیلئے ہی میرا شیخوپورہ سے کچھ آگے فاروق آباد کے ایک سکول میں جانا ہوا۔ ونٹر پیکیج کی تقسیم کے دوران ایک بچے سے میں نے تاثرات پوچھے تو کہنے لگا کہ اس کے سکول بوٹ پھٹ چکے تھے۔ کئی مرتبہ سلائی کروا چکا، لیکن اب اس میں مزید سلائی کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ والد کا سایہ اٹھنے کے بعدآسانیاں تو جیسے ہمارے گھر کا راستہ ہی بھول گئی ہیں۔ غزالی سکول والوں نے نئے سکول شوز دے کر میری ماں کی مشکل حل کر دی ہے۔ میں نے گھر کے اخراجات سے متعلق استفسار کیا تو بتایا کہ والدہ گھروں میں صفائی ستھرائی اور برتن مانجھنے کا کام کرتی ہے۔ آمدن اتنی ہو ہی نہیں پاتی کہ ان کی کوئی خواہش پوری ہو سکے۔ چند سو روپے کے نئے بوٹ بھی اسی وجہ سے نہیں لے پایا تھا۔
پاکستان کے بالخصوص دیہاتوں میں جا بجا مذکورہ طرز کی غربت اور سفید پوشی کی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہمارے ارد گرد یتیم بچوں پر مشتمل ایسی ہزاروں کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ بلاشبہ والد کا متبادل کوئی فرد یا ادارہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہم کسی مستحق کیلئے کیا کر سکتے ہیں، اس کا فیصلہ کرنے میں یقیناً ہم بے اختیار بالکل نہیں ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ونٹر پیکیج کیا ہے؟۔ ونٹر پیکیج میں سکول یونیفارم بشمول جرسی اور سکول شوز شامل ہیں، جو غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن ہر سال اپنے زیر انتظام سکولوں کے یتیم اور مستحق طلباء کو فراہم کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کورس، کاپیاں اور اسٹیشنری اشیاء بھی مہیا کی جاتی ہے۔ غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے پاکستان کے دیہاتوں میں 850 سے زائد سکول قائم ہیں جن میں پڑھنے والے مستحق طلباء اس سہولت سے مستفید ہوتے ہیں۔ غزالی فاؤنڈیشن تقسیمِ کار کا یہ نیک کام عموماً مختلف سماجی و صحافتی شخصیات اور معززینِ علاقہ کے ہاتھوں کرواتا ہے تاکہ ان کے ذریعے مستحق بچوں کی کفالت کا پیغام معاشرے میں پھیلایا جا سکے۔ اس بامقصد سفر میں میرے ہمراہ عمدہ شاعر اور کالم نگار سعد اللہ شاہ، منفرد بلاگر عامر خاکوانی، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ رقیہ اکبر، بہترین نثر نگار و شاعرہ ثمینہ سید اور اپنے اندازِ بیاں سے مشہور ہونے والے صحافی امین حفیظ تھے۔ ہم سب نے مل کر ان بچوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور ان کے آنسو پونچھے۔
ہمارے ایک دوست عبد الباسط بلوچ نے بھی حال ہی میں ایک سٹیٹ آف دی کفالت کمیونٹی سنٹر کا آغاز کیا ہے۔ وہ اس اقامتی ادارے میں والدین کی شفقت سے محروم بچوں کی پرورش کرتے ہوئے، ان کی زندگی سنوارنے اور معاشرے کا مفید شہری بنانے کیلئے پُرعزم ہیں۔ عبد الباسط بلوچ کفالت کمیونٹی سنٹر میں رہائش پذیر آرفن بچوں کو رب کا مہمان اور جنت کی ٹکٹ قرار دیتے ہوئے انہیں بہتر سہولیات دینے کی غرض سے خود کو متحرک رکھے ہوئے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ عبد الباسط بلوچ جیسے افراد اور غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن جیسے اداروں نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا اور معاشرے کے کم وسیلہ و پسماندہ طبقات کی انگلی پکڑی۔ ایسے افراد اورادارے کسی نعمت سے کم نہیں جو دوسروں کی محرومیوں کا ازالہ اپنے کردار اور عمل سے کرتے ہیں۔
آپ دردِ دل رکھتے ہیں تو کسی ایسی جگہ کا دورہ ضرور کرتے رہا کریں جہاں یتیم یا وسائل سے محروم بچے رہتے ہیں۔ ان کیلئے کچھ نہ کچھ لازماً لے کر جاتے رہیں تاکہ وہ مزید احساس محرومی کا شکار نہ ہوں۔ ان کو سنیں، ان کی جگہ اپنے بچوں کو رکھ کر سوچئے اور ان کے سر پر دستِ شفقت رکھئے ۔ کچھ زیادہ نہیں کر سکتے تو کم از کم یہ دعا ضرور کرتے رہا کریں کہ خدا کبھی کسی بچے کو والد اور والدہ کی جدائی کے دکھ سے نہ گزارے۔ یہ عوامل آپ کوان ذمہ داریوں کا اعادہ بھی کروائیں گے جو بحیثیت معاشرہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہم پر واجب ہوتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ ہمارا ظالم اور بے حس معاشرہ ایسے بچوں سے ان کی معصومیت چھین لیا کرتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button