آج کے کالممحمد انور گریوال

کسان کی پریشانیاں اور وِیگو ڈالے!!

انور گریوال

کسان ’’ویگو ڈالے‘‘ کا منتظر ہے، یہ نہیں کہ فصل آنے پر اُس نے یہ مذکورہ سواری خریدنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے، ایک کسان ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کسان نے اپنے بہت سے کام فصل کی برداشت تک ملتوی کر رکھے ہوتے ہیں۔ یہ اُن ویگو ڈالوں کا تذکرہ ہے جِن پر سوارہو کر تحصیلوں کے اسسٹنٹ کمشنرز چھاپہ مارنے نکلتے ہیں۔ یہ ماحول اُس وقت بنتا ہے جب گندم کی فصل پک کر تیار ہوتی ہے اور حکومت کسانوں پر چڑھ دوڑتی ہے کہ گندم خوراک کا بڑا ذریعہ ہے اور کسان ذخیرہ اندوزی کر رہا ہے، یعنی فصل مارکیٹ تک اُتنی مقدار میں نہیں آرہی ، جس کا اندازہ سرکار نے لگایا تھا۔ پھر کیا ہوتا ہے کہ پوری حکومتی مشینری کسانوں پر ٹوٹ پڑتی ہے، ساتھ ہی ساتھ دلجوئی کے لئے کچھ جملے بھی ادا ہوتے رہتے ہیں کہ کسان سے گندم کا ایک ایک دانہ خریدا جائے گا۔ تب ویگو ڈالوں پر سوار اے سی صاحبان کسان کو دشمن کی فوج تصور کرتے ہوئے چڑھائی کرتے ہیں، اور فتح کے پرچم گاڑتے چلے جاتے ہیں۔
آٹے کی بنائی ہوئی روٹی کھانے والے شہری کسان کی مجبوریوں اور مسائل سے قطعاً آگاہ نہیں، گندم کی قیمت میں معمولی اضافہ بھی ہو تو شہروں میں بسنے والے لوگ دیہاتیوں کے خلاف نفرت اگلنے لگتے ہیں، اور مہنگائی کا ایسا غلغلہ بلند ہوتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ، گویا کسان سے بڑا ظالم اِس معاشرے میں کوئی پیدا نہیں ہوا۔ مگر یہ نہیں دیکھتے کہ کسان کس طرح مسائل اور مصائب سے گزر کر گندم کی فصل تیار کرتا ہے؟ اب مشینی دور آجانے کی وجہ سے کسان کے اخراجات میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے، کوئی زمانہ تھا چھوٹا کسان بیلوں کی ایک جوڑی سے ہی کھیت میں ہل چلاتا تھا، صبح کا ناشتہ پہنچنے تک کھیت میں ایک مرتبہ ہل چلا چکا ہوتا تھا، اب ہل قصہ پارینہ بن چکا، ٹریکٹر آئے گا، ہل چلائے گا، چھوٹے کسان اِس مہنگے زرعی آلے کے وجود سے محروم ہیں، گندم کی بوائی کے لئے کرایہ پر ہل چلانے پر کم از کم دس ہزار روپے خرچ اٹھ جاتا ہے۔
کسان ویگو ڈالے کا منتظر ہے کہ کھاد کی کسی دکان کے سامنے ڈالا رُکے، اُس میں سے کوئی نوجوان اے سی اُترے ، کھاد کی اصل قیمت سے زیادہ وصول کرنے والے ڈیلر کو گرفتار کرے، اُس کی دکان سِیل کرے ، بھاری جرمانہ کرے۔ مگر افسوس کہ کسان کے انتظارِ بسیار کے باوجود ڈالہ نہیں آتا، کھاد کی اضافی قیمت کی وصولی کے باوجود بہت مشکل سے چکر وغیرہ دے کر ہی کھاد مہیا کی جاتی ہے۔ اب تو نوبت احتجاجوں تک آ چکی ہے، مختلف اڈوں پر کسان سڑکوں پر آ چکے ہیں، مگر نہ کسان کے پاس وافر وقت ہے، نہ اتحاد اور نہ ہی کوئی خاص قیادت۔ جب تک کوئی احتجاج کرنے والا حکومتوں کی پریشانی کا موجب نہیں بنتا ، تب تک حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ اِکا دُکا کسان احتجاج کرنے آتے ہیں تو پیچھے مویشیوں کو چارہ ڈالنے والا کوئی نہیں، رکھوالی ، نگرانی اور دیگر بہت سے مسائل نے کسان کے قدم جکڑ اور ہاتھ باندھ رکھے ہیں ۔
کسان کا کام جہاں مشکل ترین ہے، وہیں یہ محاورہ بھی دیہات میں عام ہے کہ کسان کی اللہ تعالیٰ سے شراکت داری ہے، بات ظاہری طور پر تو بہت دلکش اور پُر کشش دکھائی دیتی ہے، مگر اندر کی بات کسان ہی جانتا ہے، کہ زمین میں گندم کا دانہ بو دینے کے بعد ایک ایک لمحہ کسان کا کیسا گزرتا ہے؟سب سے پہلے تو اُس کے بوئے ہوئے دانے کو مکوڑے کھا جاتے ہیں، یا پھر بہت سے پرندے بھی اپنا حصہ وصول کرنے پہنچ جاتے ہیں، اس مرحلے کے بعد اگر کبھی بے موسمی بارش آگئی تو گندم کی اُگائی میں واضح کمی واقع ہو جاتی ہے۔ پھر ہزاروں روپے کے قیمتاً پانی لگانے ، مہنگی اور بلیک میں خریدی ہوئی کھادیں ڈالنے اور جڑی بوٹیوں کی سپرے کرنے کے بعد جب گندم کی فصل تیار ہونے کے قریب پہنچتی ہے، اور گندم کی بالی میں موجود دانے کا وزن بڑھنے لگتا ہے، تب آندھیوں کا موسم نمودار ہوتا ہے۔ اگر کسان نے رات کھیت کو پانی لگایا تھا اور اوپر سے آندھی نے آلیا تو پوری فصل زمین بوس ہو جاتی ہے، گویا قالین بِچھا ہے، تب اس کی بالی میں بننے والا دانہ کمزور رہ جاتا ہے، جس کا بعد میں وزن بھی کم ہوتا ہے اور قیمت بھی نہیں لگتی۔ یعنی فصل کے پکنے تک کسان کے سر پر موسم کی تلوار لٹکی رہتی ہے۔ جب موسم کا خطرہ ٹل جاتا ہے تب قیمت کا مرحلہ آتا ہے، کسی نے درست ہی کہا ہے کہ ہمہ قسم کے تاجر اپنی جنس کی قیمت خود لگاتے ہیں، مگر بدقسمت کسان اپنی جان کی طرح پالی ہوئی فصل کی برداشت کے موقع پر دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔
اگر حکومت کم قیمت پر گندم اپنے شہریوں کو فراہم کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے وہ کسان کو کھاد رعایتی قیمت پر فراہم کرے، کم قیمت کے ساتھ ساتھ فصل کی بوائی کے وقت کھاد دستیاب ہونی چاہیے۔ دوسرا اہم قدم حکومت یہ اٹھا سکتی ہے کہ کسان کو دی جانے والی بجلی کی قیمت کم کرے، تاکہ ٹیوب ویل وغیرہ کے ذریعے لگایا جانے والا پانی کسی حد میں رہ سکے۔ کوئی وقت تھا جب ڈیزل کی قیمت پٹرول سے بہت کم ہوا کرتی تھی، اب ڈیزل کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ فصل کی کاشت کے وقت تیاری کے اخراجات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ کسان تو دیہات میں سڑکوں اور سہولتوں سے محروم ہے، کھیت سے منڈی تک سڑک بنانے کے دعوے پر گزشتہ ایک دور میں کچھ عمل ہوا، ستم یہ ہوا کہ سڑک پر بنائی گئی پیلی لکیریں ابھی باقی تھیں کہ سڑک اپنا وجود کھونے لگی۔ کرپشن اور بددیانتی جونکوں کی طرح قوم کا خون چوس رہی ہے۔ محکمہ زراعت یقیناً معاملات میں جِدت کا علمبردار ہو گا، مگر گندم کی بوائی کے موقع پر خاموشی کی بُکل مارے سو رہا ہے، سرمایہ داروں کو ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کی خوب چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ کارروائی کی حد تک تو محکمہ مذکور کسانوں کی رہنمائی کے فرائض بخوبی نبھا رہا ہوگا ، مگر حقیقی معانوں میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ جب کسان کو فصل کے آغاز میں مدد نہیں ملتی ، بلکہ اُسے خراب کیا جا رہا ہے تو فصل تیار ہونے پر اُس پر سختیوں کا کیا جواز ہے؟ اسسٹنٹ کمشنروں کے ڈالے اگر اب کسان کی مدد کو نہیں آتے تو کسان کی فصل کی تیاری کے موقع پر اُن کو آنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔

جواب دیں

Back to top button