ایس او ایس چلڈرن ویلج
خیر زمان راشد
ایس او ایس ویلج ایک بین الاقوامی تعلیمی ادارہ ہے۔ جو یتیم اور متاثرہ بچوں کی تعلیم ،ہنر مندی اور بحالی کیلئے سرگرم عمل ہے۔اس ادارے نے پاکستان اور آزاد کشمیر میں اپنے کیمپس قائم کر رکھے ہیں۔ جن میں ایک دانش گاہ مظفرآباد شہر میں شاہراہ سری نگر پر پیما ہسپتال کے قریب ہے۔ اداروں کی پروفائل زمین پر کیسی ہوتی اور کیسی ہونی چاہیے۔ یہ پروفیشل ازم اور تحرک آپ کو صرف ان اداروں میں ملے گا۔ جن کی سپرویزن کہیں نہ کہیں بین الاقوامی نگرانی میں ہو رہی ہو۔ اس لئے کہ وہ لوگ معیار پہ کمپرومائز نہیں کرتے اور ساکھ خراب نہیں ہونے دیتے۔ آزاد کشمیر میں چلڈرن ویلج مظفرآباد جہلم ویلی روڈ نزد پیما ہسپتال اس کی خوبصورت مثال ہے۔
بچوں کا یہ نگر پھولوں سے ِگھرا انتہائی صاف ماحول سبزہ زار اور کشادگی کی فضا ہے۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر میم بینش آفس میں موجود تھیں۔ پہلا تاثر اور ملاقات ایک فعال اور پروفیشنل شخصیت کا تھا۔ لیکن جب ہم ان سے اجازت لے کر نکل رہے تھے تو بس یہ احساس کہ ہم ایک ماں کے پاس بیٹھے تھے۔ جس کے پاس اپنے بچوں کی فکر اور محبت کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے۔ ممتا کا یہ جذبہ ہر عورت کو ودیعت ہوا ہے۔ البتہ کہیں بے پناہ ہوتا ہے۔ سمندر کا سا گہرا اور آسماں کا سا بلند۔ ایک گھنٹہ کی نشست میں، میری بچیوں کی تکرار، نسبت اور روح تک رچے احساس کے بغیر کوئی بات نہیں کی گئی۔
حیرت ہے انھوں نے عمومی مزاج کے برعکس اپنے سٹیسٹس کو مائنس کئے رکھا۔ نہ اپنے بچیوں کی کہانیاں نہ برادری اور سٹیٹس فوبیا، نہ سیاست اور بیورکریسی میں اپنے لوگوں کی گنتی نہ سماجی سکینڈل پر گفتگو اور نہ حالات حاضرہ کی غیر ضروری حساسیت۔
ایک ذمہ دار شخص کی صحبت ایک روحانی تجربہ سے کم نہیں ہوتی۔ ورنہ ہم اکثر لوگوں سے ان کے سٹیٹس کی کہانیاں سنتے سکینڈلز کے ہیجان سے بھرے جملے سہتے، مروت میں سن کر جی جلاتے لوٹ آتے ہیں۔ ہاں میرے تجسس نے دو چار سوالوں کی کمند پھینکی۔ اور راز کھلا کہ میم کے دادا بارہ مولا سے لاہور گئے۔ اور اب وہ یہاں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
ادارے کی فیکلٹی پر بات ہوئی۔ یہاں بچوں کی تربیت، خوراک، تعلیم، روزگار اور ان کے خاندان بنانے کی عمر تک خیال رکھا جاتا ہے۔ عصری مہارتوں اور اعلیٰ تعلیم کیلئے دیگر سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں تعلیم دلانے کیلئے بھیجا جاتا ہے۔ اور اس دوران مکمل سپرویزن رکھی جاتی ہے۔ اس ملاقات میں پرائیویٹ سکولوں کی غیر سنجیدگی اور بچوں کی نفسیات کو زخمی کرنے کے رویوں پر بھی بات ہوئی۔ آزاد کشمیر میں پرائیویٹ سکول سسٹم ایک مافیا ہیں۔ اور ان کے رویے زہریلے اپنے مالی مفادات کیلئے یہ بچوں کی نفسیات اور مستقبل کا بیڑہ غرق کرتے جا رہے ہیں۔ اس قوم کی نفسیات کا تو خیر کس نے خیال رکھنا ہے،لیکن ہمارے مستقبل کے ان پھولوں کی نفسیات کو تو بحال رکھا جانا چاہیے تھا۔ بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ ہماری ضرورت ایس او ایس ویلج جیسے معیاری ادارے ہیں۔ جو بچوں کی نفسیات، تعلیم اور مہارتوں پر سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔ ایسے ادارے دو چار پانچ سالہ منصوبہ بناکر پھر فرار کی نیت سے نہیں آتے۔ نہ ان کے مذہبی اور سیاسی مقاصد ہوتے ہیں۔ یہی وجہ سے ہے کہ وقت کے ساتھ یہ حالات سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اور نئی روایات اور سلامت شعور نئی نسل تک پہنچتا ہے۔
ہماری بدنصیبی ہے کہ یہاں اداروں اور خاص کر تعلیمی اداروں میں بچوں اور عملے کی نفسیات پر توجہ نہیں دی جاتی۔ حالانکہ یہ توجہ دینا کام کے معیار اور تعلیم رجحان میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس عمومی بے حسی کے برعکس ایس او ایس ویلج میں بچوں اور عملہ کے نفسیاتی مسائل کے حوالے سے باقاعدہ ایک کوالیفائڈ سائیکالوجسٹ ہیں۔ جو بچوں کے سیشن لیتی ہیں۔ اور ادارے کو چوبیس گھنٹے دستیاب ہیں۔ نفسیات کے طالب علم اور بچوں کے نفسیاتی مسائل سے دلچسپی کی وجہ سے ان سے ملنا چاہا۔ حسن اتفاق کہ وہ نیلم سے ہیں۔ برادر شہزاد اسلم اور فواد اسلم کی چھوٹی بہن ہیں۔ وہ مختصر وقت کیلئے نشست میں رہیں۔مدیحہ اسلم نفسیات کی ڈگری ہی نہیں رکھتیں انھیں نفسیات کا گہرا ادراک بھی ہے۔ بچوں کی اس جنت کے چند لمحوں میں ہم نے ہر سمت ممتا کی سی خوشبو محسوس کی۔ایس او ایس ویلج میں مظفرآباد، کشمیر بھر اور پاکستان سے بھی لوگ وزٹ کیلئے آتے ہیں۔ جہاں وہ بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ وہاں ادارے کے تربیتی اور تعلیمی ماحول سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ یہ بات ہمارے تعلیمی شعور کو بیدار کرتی ہے۔ ہم بچوں کے حوالے سے روایات سے ہٹ کر سوچتے ہیں۔
اس نوعیت کے ویلج کا خیال اس وقت پروان چڑھا جب دوسری جنگ عظیم میں جرمنی میں بچے بالکل تنہا رہ گئے۔ ان کی تعلیم، تربیت، صحت اور ان کی بقا کے مسائل پیدا ہوگئے۔ صاحبِ احساس جرمن شہری ہرمن مائینر نے اس صورت حال میں بچوں کو اپنے گھر میں پناہ فراہم کی، یوں اس خیال نے ایک تحریک اور ادارے کی شکل اختیار کی جو آج پوری دنیا میں یتیم بچوں کی کفالت اور بحالی کا معیاری نیٹ ورک ہے۔ پاکستان میں ستر کی دہائی میں اس کی ابتدا ہوئی، مس ثریا انور نے پاکستان میں اس کی ابتدا کی، یوں مس ثریا خاور پاکستان میں ایس او ایس ویلج کی بانی اور سرپرست قرار پائیں۔ یہ عظیم خاتون آج بھی اپنے مشن کیلئے دستیاب اور متحرک ہیں۔
کشمیر میں اس ادارے کے دو پراجیکٹ ہیں۔ ایک راولاکوٹ اور دوسرا مظفرآباد میں، مظفرآباد میں اس کی دو شاخیں ہیں۔ ایک چلڈرن ویلج اور دوسرا یوتھ ہوم، چلڈرن ویلج، سری نگر روڈ پر پیما ہسپتال کے قریب ہے اور یوتھ ہوم ماکڑی میں ہے۔ ماکڑی میں بچوں کی تعداد 29 اور چلڈرن ویلج میں87 ہے۔ ادارہ میں ماں باپ سے اور سماجی سرپرستی سے محروم بچے داخل کئے جاتے ہیں۔ ایسے ماں باپ جن کے کسی باہمی جھگڑے کی وجہ سے بچے متاثر ہوں یا ماں یا باپ معذور ہوں یا طلاق کی وجہ سے بچوں کی تربیت اور تعلیم ممکن نہ رہی ہو۔ ایس او ایس تمام بچوں کو ایک مڈل کلاس فیملی کی سی سہولیات مہیا کرتا ہے۔ جس میں اس کی اچھی خوراک، تعلیم جہاں تک حاصل کرنا چاہے ۔اور ان کی ٹریننگ، نوکری اور شادی میں معاونت بھی شامل ہے۔ یہاں بچے کو صحت مند ماحول دینے کی بہترین کوششیں کی جاتی ہیں۔ کھیل کود، صحت، کھلی فضا اور ماں اور باپ کی طرح پیار اور محبت دینے والا سٹاف موجود ہے۔ بچوں کے رجحان اور تخلیقی صلاحیتوں کی رعایت سے ترتیب دیا گیا نصاب اور چوبیس گھنٹے کی سرگرمیاں یقیناً مستقبل میں اس قوم کو نیا شعور اور نیا عزم دینے کا باعث ہوں گی۔
زندگی ایک آزار گاہ ہے۔ جسے جنت بنانے والے کم میسر ہیں۔ لیکن جو ہیں انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ چلڈرن ویلج جیسے ادارے زندگی سے ہارے ہوئے معاشروں کیلئے امید کا آفتاب اور محبت کا چراغ ہیں۔ آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں اور مخیر حضرات کیلئے بھی یہ ایک بہترین مثالی اور قابل تقلید ادارہ ہے۔ ایس او ایس ویلج جہلم ویلی کے اس کیمپس میں ہم نے دیکھا کہ جہاں بچوں کیلئے صحت مند ماحول، کلاس روم کھیل کے میدان اور پارک ہیں۔ وہیں بچوں کی اپنی تخلیقی کاوشیں بھی ڈرائنگز، گارڈننگ اور چارٹ کی صورت میں موجود ہیں۔ بچوں کے کھیلنے اور سونے کے کمرے کھلونوں سے سجے ہیں۔ عمارت کی تعمیر اور آرائش میں بھی بچوں کی دلچسپی اور ان کی نفسیات کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ بچوں کے کھیل، رہائش، کھانے اور سونے کے کمروں کی سجاوٹ اس انتظامی خوبی کی گواہ ہے۔ اور ماہرین کے تعلیمی اور نفسیاتی شعور کی نمائندگی کر رہی ہے۔ ایس او ایس چلڈرن ویلج مظفرآباد کی انتظامیہ اساتذہ اور مددگار یقیناً تحسین کے مستحق ہیں لیکن اس خراج عقیدت کے اصل مستحق پاکستان میں اس پراجیکٹ کے روح رواں اور دنیا بھر سے ایسے اداروں کی سرپرستی کرنیوالے سب مخیر حضرات اور منتظمین ہیں۔ جن کی انسانیت کے مستقبل کی وارث نسل کیلئے یہ کاوشیں اس شاندار ادارے کی صورت میں موجود ہیں۔
چلڈرن ولیج مظفرآباد میں ہم لاریب سفیر قریشی کے ذریعے پہنچے، لاریب ایس او ایس چلڈرن ویلج میں سپانسر شپ کو آرڈینٹر ہیں۔ اور ہمارے لئے ایک متحرک ہونہار اور مستقبل کی حرکیات کو سمجھنے والی سماجی کارکن ہیں۔ جو آزاد کشمیر یونیورسٹی میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ طلبہ کی فلاح اور تعلمی کونسلنگ اور تعاون کیلئے ایک تنظیم گارڈین میں بھی فعال کردار ادا چکی ہیں۔ بچوں کے اس نگر کیلئے سفر میں میرے ساتھ سردار رمضان کشمیری تھے۔ لاریب سفیر قریشی اور سردار رمضان جیسے ذمہ ادر اور متحرک نوجواں ہی ہمارے مستقبل پہ اٹھتے سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں ۔