ایڈیٹوریل

افغانوں کے زیراستعمال سبز پاسپورٹ

ملک بھر میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں اور دوسرے غیر ملکی شہریوں کے لئے آپریشن جاری ہے، آپریشن کتنا کامیاب چل رہا ہے، اور کیا حقائق سامنے آرہے ہیں اِن پر بات کیا جانا لازم ہے۔ مگر وزارت داخلہ کے ذرائع سے ایک نیا انکشاف ہوا ہے جو لرزہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری ’’رحم دلی‘‘ بھی ظاہر کرتا ہے۔ افغانستان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا نام ایسے ہزاروں افغان شہریوں کی فہرست میں شامل ہے جن کے پاس ماضی قریب تک پاکستانی پاسپورٹ تھا، یہ پاسپورٹ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے مختلف شہروں سے جاری کیے گئے تھے۔ حقانی کو پانچ سال کے لئے پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا جو انہوں نے کئی ممالک بالخصوص قطر جانے کے لئے استعمال کیا۔ قطر میں انہوں نے امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے تھے جس کے نتیجے میں دوحہ معاہدہ سامنے آیا تھا اور امریکہ کا افغانستان سے انخلاء ممکن ہوا۔ حکام نے حقانی کو پاسپورٹ جاری کرنے والے دو عہدیداروں کو گرفتار کر لیا ہے جن میں سے ایک اس وقت ملازمت سے ریٹائر ہو چکا تھا جب اس کیخلاف کارروائی شروع ہوئی۔ ریکارڈ کی صفائی کے کام کی معلومات رکھنے والے ایک باخبر عہدیدار نے بتایا کہ افغان شہریوں کو جاری کیے گئے تیس سے چالیس ہزار پاسپورٹس بلاک کر دیے گئے ہیں۔ مختلف شہروں میں قائم پاسپورٹ کے دفاتر نے افغان شہریوں کو پاسپورٹ جاری کیے جن میں سندھ کے شہر کراچی اور ٹھٹہ شامل ہیں۔ بلوچستان اور کے پی کے شہروں کا نام بتائے بغیر مذکورہ عہدیدار نے کہا کہ مختلف شہروں میں قائم پاسپورٹ دفاتر بھی اس بدعنوانی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں مقیم افغان شہری پاکستانی پاسپورٹ پر مختلف ممالک میں ملازمتیں کررہے ہیں اور ماضی قریب میں سعودی حکام یہ معاملہ حکومت پاکستان کے سامنے بھی اٹھاچکے ہیں کہ افغان شہریوں نے سعودی عرب میں ملازمت کے حصول کے لئے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کر رکھے ہیں بلکہ یہاں تک کہ سعودی حکومت نے ان پاسپورٹس کی نقول بھی فراہم کیںاس کے بعد حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے کی مفصل تحقیقات کرائی جائیں جس سے یہ بات سامنے آئی کہ افغان شہریوں کو جاری کردہ پاسپورٹس کی تعداد تیس سے چالیس ہزار کے درمیان ہے،اِس لئے ان سب پاسپورٹس کو منسوخ کر دیا گیا ہے اور ان کے اجراء میں ملوث افسران کیخلاف ایف آئی اے کے ذریعے کارروائی کی جا رہی ہے۔ اب بات کرتے ہیں غیر قانونی مقیم افغانیوں اور دیگر غیر ملکی شہریوں کی جو پاکستان آئے مگر یہیں کے ہوکر رہ گئے اور اب ان کی وطن واپسی کے لئے ملک بھر میں آپریشن جاری ہے۔ ہمارے اخبار میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق حساس اداروں نے آئی جی پنجاب کو ایک مراسلہ لکھا ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ پولیس اہلکار غیر قانونی مقیم افغانیوں سے بھاری رقم بٹورکر انہیں علاقہ چھوڑکر دوسری جگہ منتقل ہونے کے صلاح و مشورے دے رہے ہیں لہٰذا یہی وجہ ہے کہ پنجاب سے بہت کم افغانی اور دیگر غیر ملکی شہریوں کی اُن کے وطن واپسی ہوسکی ہے۔ جب آئی جی نے ڈی پی او صاحبان سے اِس مراسلے کی روشنی میں وضاحت مانگی اور ناراضگی کا بھی اظہار کیا تو جواباً ایسے ایسے جواز گھڑ کر بیان کردیئے گئے جن کے بعد اِس جوابی مراسلے کو بجا تسلیم کرلینا ہی اخلاقیات ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم ترقی یافتہ کیوں نہیں اور ہمارے پڑوسی چاند پر پہنچ گئے مگر ہم ابھی تک وہیں کے وہیں کھڑے ہیں تو اِس کے پیچھے ایسے ہی ’’کارنامے‘‘ جابجا نظر آتے ہیں۔ پہلے پہل ہم نے تین دہائیوں تک افغانیوں کو اپنے قومی وسائل میں برابر کا شراکت دار رکھا اور دوسرے ممالک کے برعکس انہیں پورے ملک میں پھیل جانے کے لئے مواقعے فراہم کئے، لہٰذا افغانیوں کی تیسری نسل یہاں پروان چڑھ گئی مگر ہم نے کبھی اِس اہم معاملے پر سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی، ماضی کی حکومتیں افغانیوں کو وطن واپس بھیجنے کے نعرے تو بلند کرتی رہیں لیکن سیاسی نعروں کی طرح اِن نعروں پر بھی عمل درآمد کبھی نہیں ہوا یہی وجہ ہے کہ ہم تین دہائیوں تک لاکھوں لوگوں کی مہمان نوازی کرتے کرتے اپنے لئے مسائل در مسائل کھڑے کربیٹھے ہیں مگر جو کام منتخب حکومتیں نہیں کرسکیں وہ نگران حکومت نے کردیا اور افغانیوں سمیت تمام غیر ملکیوں کو جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، انہیں ان کے وطن واپس بھیجنے کا تہیہ بھی کیا اور عملی اقدامات بھی کئے مگر حساس اداروں نے مراسلے کے ذریعے پولیس کی کارکردگی افشا کردی ہے کہ لین دین کا معاملہ طے کرکے انہیں ملک نہیں علاقہ بدری کا مشورہ دے دیاجاتا ہے پھر وہ دوسرے علاقے کی پولیس سے ساز باز کرتے ہیں اس لئے قطعی مشکل نہیں جہاں حساس قومی معاملات پر اداروں کے ایسے رویے ہوں وہاں مشکلات اور خطرناک چیلنجز ہمارے سامنے نہ ہوں۔ بالفرض پاکستانی پاسپورٹ کا حامل کوئی افغان یا کوئی دوسرا غیر ملکی کسی دوسرے ملک میں کوئی غیر قانونی حرکت یا خطرناک جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو سبز پاسپورٹ کی وجہ سے گرفت میں ہم ہی آئیں گے۔ لہٰذا حساس قومی معاملات میں سنجیدگی اور ایمانداری سب سے زیادہ ضروری ہونی چاہیے مگر ہمارے یہاں مٹھی گرم کرکے کچھ بھی کروایا جاسکتا ہے، افغان مہاجرین نے پاکستانی شناختی کارڈ بنوالئے، جائیدادیں خرید لیں، اور حیران کن امر یہ کہ افغان عبوری حکومت کے عہدیدار پاکستانی پاسپورٹ استعمال کررہے ہیں۔ اگر انہیں پاسپورٹ جاری کرنا حالات کی ضرورت تھی تو بعد میں منسوخ بھی کیا جانا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیاگیا دوسری طرف چالیس ہزار کے لگ بھگ افغانی شہری پاکستانی پاسپورٹ پر پکڑے گئے اور انہیں ڈی پورٹ کرکے افغانستان بھیج دیا گیا اور نجانے کون کونسے ممالک میں افغان شہری سبز پاسپورٹ پر رہ رہے ہیں اِس لئے بہت ضروری ہے کہ اِس معاملے کو جتنی سنجیدگی سے لیاگیا ہے، سنجیدگی کو تب تک برقرار رکھا جائے جب تک سبز پاسپورٹ صرف پاکستانیوں تک محدود نہیں رہ جاتا۔ اور جو لوگ پیسہ کھاکر اِن کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کرتے رہے ہیں۔ اِن کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے اور آئندہ کے لئے ایسا نظام وضع کیا جائے کہ کوئی غیر ملکی مقررہ معیاد سے زائد یہاں قیام نہ کرسکے اور نہ ہی اِسے کوئی قومی دستاویز یا شناخت جاری کی جائے۔

جواب دیں

Back to top button