موسیقی کا بدرالزماں،عہد جو تمام ہوا
مدثر قدیر
گزشتہ دو دن بڑی افسردگی میں گزرے ۔ جمعرا ت کو اپنے ریڈیو پروگرام فن اور فن کار کے دوران مجھے اور ڈاکٹر امجد پرویز کو بات کرنا تھی ملکہ ترنم نور جہاں اور موسیقار ماسٹر عنایت حسین کے اشتراک سے بننے والے فلمی گیتوں کی جس کیلئے پروگرام سے قبل ہم نے طے کیا کہ ملک کے معروف کلاسیکل گلوکار، سکالر اور موسیقار استاد بدرالزمان کو بذریعہ فون کال پروگرام میں لائیو شامل کیا جائے ۔میں نے ان کو فون کیا تو دوسری جانب سے ان کی مدھر آواز آئی سوہنیو کی حال اے ،کتھے غائب او۔ میں نے کہا کہ سر آپ کے پاس ہیں اور ڈاکٹر امجد پرویز بھی آپ کو سلام کہہ رہے ہیں تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے سلام کا جواب بھی دیا میں نے عرض کیا کہ آج آپ سے ماسٹر عنایت حسین اور ملکہ ترنم نور جہاں کے فن سے تخلیق ہونیوالے گیتوں پر بات کروانی ہے تو انھوں نے کہا کیا بات ہے آپ کی مجھے اپنی جوانی یاد کرادی ،ماسٹر عنایت حسین کے فن کا میں مداح ہوں ہم دونوں اکھٹے منٹو پارک(مینار پاکستان) واک کرتے رہے ہیں انہوں نے فلم انارکلی کیلئے سب سے پہلے نورجہاں سے گوایا اور کیا نغمے بنے آج تک ان کی یاد میرے ذہن سے نکل نہیں سکی ۔استاد بدر الزمان نے ہمارے پروگرام میں لائیو شرکت کی اور اپنے تجزیہ کو ریڈیو پاکستا ن کے توسط سے سامعین تک پہنچایا دیر رات پروگرام کےاختتام کے بعد میں تھکاوٹ سے چور گھر پہنچا اورہمیشہ کی طرح چائے پی کر سوگیا ،صبح دفتر کی راہ لی اور جیسے ہی دفتر پہنچ کر فیس بک کو آن کیا تو ایک پیغام سامنے آیا جو اُستاد بدرالزمان کے آفیشل اکائونٹ پر موجود تھا کہ ابھی کچھ دیر قبل صبح ان کا دل کا دورہ پڑنے سے موت واقع ہوگئی ہے ۔اس خبر نے مجھے افسردہ کردیا اور میں نے ڈرتے ڈرتے ان کے نمبر پر کال کیا تو دوسری جانب سے نسوانی آواز آئی جس نے اس خبر کو کنفرم کردیا انھوں نے بتایا کہ صبح 3 بجے ان کی طبیعت خراب ہوئی اور صبح سات بجے خالق حقیقی سے جاملے ۔استاد بدرالزمان سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی مجھے معلوم نہیں مگر ان کو میں نے اپنے بچپن میں اکثر گوالمنڈی اور موچی دروازے میں گھومتے دیکھا بلکہ لاہور کی علمی ادبی محفلوں اور ریڈیو پاکستان لاہور میں ان سے تواتر سے ملاقات ہوتی تھی ان کے حلقہ احباب میں پروفیسرز اور شاعروں کی بڑی تعداد تھی اور میں اسی لئے ان کو کسی کالج یا پنجاب یونیورسٹی کا پروفیسر ہی سمجھتا تھا مگر بہت دیر بعد معلوم ہوا کہ بدر الزمان خان کلاسیکل گلوکار اور معروف کلاسیکل جوڑی بدرالزمان،قمر الزمان والے بدرالزمان ہیں۔ استاد بدرالزمان اندرون لاہور کے رہائشی اور ان کو گلوکاری کے علاوہ پڑھنے لکھنے کا شوق بھی تھا اور یہی وجہ تھی کہ علمی ادبی محفلوں میں تواتر سے شرکت کرتے۔ یہ محفلیں اکثر پاک ٹی ہائو س اور کبھی کبھا ر وائے ایم سی میں ہوتی تھیں جن میں اکثر ان سے ملاقات ہوتی مگر جب ریڈیو پاکستان تشریف لاتے تو ان کا حلقہ احباب موسیقی سے جڑی شخصیات ہوتیں ۔استاد بدر الزمان اندرون لاہور میں 1940 میں پیدا ہوئے ان کا تعلق کپڑے کے تاجروں کے امیر گھرانے سے تھا ابتدائی تعلیم گھر کے قریبی سکول سے حاصل کرنے کے بعد موسیقی کے شعبے میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور پنجاب بھر میں اس حوالے سے پہلے نمبر پر رہے ، بعد میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کیا ۔فن موسیقی سے ان کا لگائو بچپن ہی سے تھا اور اکثر کہتے تھے کہ اندورن موچی گیٹ میں ہمارے گھر کے قریب استاد چھوٹے غلام علی خان رہتے تھے اور میں اکثر ان کے ہاںجاتا اور ان کو گاتا دیکھ کر میرے دل میں بھی کلاسیکی گلوکار بننے کی خواہش پیدا ہوئی جس کے بعد میں نے ان کی شاگردی اختیار کرلی اور ان کے فیض سے مستفید ہوتا رہا ۔استاد چھوٹے غلام علی خان کے علاوہ انہوں نے موسیقی کی تربیت استاد فیض علی، استاد افتخار احمد خان اور استاد بھائی نصیر سے بھی حاصل کی مگر استاد چھوٹے غلام علی خان سے دیرینہ وابستگی کی بنا پر قصور گھرانے کی روایات کو ہی آگے بڑھایا۔استاد بدرالزمان نے اپنے فنی سفر کاآغاز 1956 میں ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا۔پرویز شامی نے ان کو متعارف کرایا جس کے بعد ان کی ریڈیو پاکستان سے وابستگی عمر کے آخری دن تک برقرار رہی ۔استاد بدرالزمان نے پاکستانی فلمی موسیقی کیلئے بھی خدمات سرانجام دیں وہ ایک عرصے تک موسیقار نثار بزمی کے ساتھ بطور معاون وابستہ رہے اور فلمی موسیقی کے اسرار رموز سیکھتے رہے مگر بعد میں انہوں نے اپنی تمام تر توجہ کلاسیکل موسیقی اور خیال گائیکی کی طرف کرلی اور اپنے بھائی استاد قمر الزمان کے ساتھ جوڑی بنا کر موسیقی کی محفلوں میں پرفارم کرنا شروع کردیا جہاں اس جوڑی کو بھی مقبولیت ملی اور کلاسیکل موسیقی کے چاہنے والوں نے اس جوڑی کی پرفارمن کو بھی سراہا۔استاد بدرالزمان کی شہرت گلوکاری کے علاوہ استاد یعنی مدرس کی بھی تھا اور وہ طویل عرصے تک پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ موسیقی میںبطور ایسوسی ایٹ پروفیسر خدمات سرانجام دیتے رہے اور اس دوران انہوں نے موسیقی کے موضوع پر کئی مقالے اور کتابیں بھی تحریر کیں جن سے آج بھی موسیقی کے طالب فیض یاب ہورہے ہیں۔استاد بدرالزمان نے پنجاب کی بیشتر آرٹس کونسلوں میں ڈرامہ اور موسیقی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا اور فیصل آباد،سرگودھااور ڈی جی خان آرٹ کونسل میں بطور ڈائریکٹر خدمات بھی سر انجام دیں اور وہاں پر مقامی فنکاروں کے فن کو شائقین فن تک پہنچایا ۔انہوں نے شعبہ موسیقی کیلئے 60سال سے زائد خدمات دیں اور ان کی خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں متعدد اعزازات سے نوازا۔ بدر الزمان اور قمر الزمان کی جوڑی کو 2006 صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی شامل ہے جبکہ ان ایوارڈز کی فہرست طویل ہے جو ان کو غیر سرکاری طور پر ملے۔ 2001میں ان کو فنی خدمات پر ریڈیو پاکستان نے بھی قومی ایوارڈ برائے کلاسیکل سنگر دیا ۔استاد بدرالزمان نے خیال ،ٹھمری،دادرا اور غزل کے میدان میں جو خدمات دیں انہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا ان کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ پاکستان کی پہلی میوزک اکیڈمی ان کے نام سے منسوب کی گئی ہے۔ پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کے تحفظ اور فروغ کیلئے استاد بدرالزمان کی ہستی کو پورے برصغیر پاک و ہند میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوںنے برصغیر کے مسلمان موسیقاروں کی کمپوزیشن کو فروغ دینے اور ان کی دوبارہ نوٹیشنز لکھ کر تاریخی کردار جو ادا کیا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ پاکستانی کلاسیکی موسیقی کے فروغ اور نوجوانوں کی فن میں تربیت، ان کا طرہ امتیاز ہے اور یہی وجہ ہے کہ کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے جب بھی کوئی جامع تاریخ مرتب کی جائے گی تو جدید کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔