ایڈیٹوریل

عام انتخابات اور سکیورٹی کے خدشات

ملک میں آٹھ فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوچکا ہے۔ الیکشن کمیشن اپنی تیاریاں تیزی کے ساتھ مکمل کررہا ہے، ایک روز قبل ہی مطلوب فنڈز بھی وفاقی حکومت نے فراہم کردیئے، لہٰذا یہ رکاوٹ بھی فوری دور ہوگئی مگر عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق جو چہ مگوئیاں اور دعوے فنڈز فراہمی کے بعد ختم ہونا یقینی تھے، اُن میں شاید اب مزید اضافہ ہوجائے کیونکہ جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نےچونکا دینے والے معاملے پر سبھی کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ مولانا نے کہا ہے کہ دو صوبے بدامنی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں، کیا ایسے ماحول میں انتخابی مہم چلائی جاسکے گی؟ ہم تو انتخابات کے لئے ہر وقت تیار ہیں مگر الیکشن لڑنے کا ماحول تو دیا جائے۔ مولانا نے دہشت گردی کے چند واقعات کا ذکر کیا بقول اُن کے پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان،ٹانک اور لکی مروت میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے اور وہاں کوئی پولیس نہیں ، رات کو سڑکوں پر پولیس کی بجائے مسلح لوگ ہوتے ہیں۔نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بھی مولانا فضل الرحمن کی تشویش پر مبنی گفتگو پر صداقت کی مہر ثبت کردی ہے۔ سرفراز بگٹی نے بھی کہا ہے کہ امن و امان کی صورت حال دن بدن بڑا چیلنج بنتی جارہی ہے۔ سکیورٹی کے چیلنجز در پیش ہیں، الیکشن ایس او پیز، امن و امان کے حوالے سے اس ہفتے تمام پارٹیوں سے بات چیت کریں گے۔ نگران وزیرداخلہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ الیکشن میں افواج کی دستیابی کے بارے میں بارے وزارت دفاع ہی بتا سکتی ہے، تاہم سکیورٹی سے متعلق الیکشن کمیشن کی جو بھی ضرورت ہوگی، وہ پوری کریں گے۔ دشمن کی ایجنسیاں پاکستان کے خلاف بھر پور قسم کی پراکسی جنگ کر رہی ہیں، ٹی ٹی پی ، بی ایل اے، بی آراے، بی ایل ایف دہشت گرد تنظیموں کی دشمن ملک کی ایجنسیاں پشت پناہی کرتی ہیں۔مگر 2013 اور 2018 ء کے انتخابات میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ، لہٰذا جب جب الیکشن ہوتا ہے، دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے ، ہماری بھر پور کوشش ہو گی ہم اس مرحلے سے گزر جائیں۔ محض اتفاق سمجھیں یا کچھ اور، سابق وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کے سنیئر رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ انتخابات ملتوی ہونے کی کوئی کوشش گنجائش نہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ آٹھ فروری کو انتخابات ہوجائیں۔ مولانا فضل الرحمن بزرگ اور تجربہ کار سیاست دان ہیں لیکن ان کی جماعت کا زیادہ ووٹ بینک بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہے اور متذکرہ دونوں صوبے ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں، اِن صوبوں میں پاک فوج اور نیم فوجی دستے کئی سال سے دہشت گردوں کا جڑ سے قلع قمع کرنے کے لئے آپریشن میں مصروف ہیں تاہم سندھ اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں الحمد للہ دہشت گردی کی ایسی صورت حال نہیں ہے۔ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بھی مولانا فضل الرحمن کے خدشات کی تائید کی ہے لہٰذا ایک بار پھر وہ بحث زور پکڑ لے گی جس میں عام انتخابات مقررہ تاریخ کو نہ ہونے کے دعوے کئے جارہے ہیں اور اپنی بات کا وزن بڑھانے کے لئے ایسی تاویلیں بھی پیش کی جارہی ہیں جن کو مقررہ تاریخ پر انتخابات نہ ہونے کی صورت میں تقویت ملے گی۔ مثلا ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک کے سیاسی حالات بلکہ سیاسی انشار کی وجہ سے عام انتخابات کا ماحول نہیں بن رہا جیسے لوگ انتخابی عمل سے لاتعلقی ظاہر کررہےہیں حالانکہ مسلم لیگ نون بھی میاں نوازشریف کی وطن واپسی کے بعد اب متحرک نظر آرہی ہے جبکہ بلاول بھٹو بھی جوشیلی تقاریر سے کارکنوںکا خون گرما رہے ہیں مگر اِس کے باوجود جیسے مولانا نے فرمایا ہے کہ عام انتخابات کے لئے ماحول نہیں بن رہا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تو امن و امان کی صورت حال کے باعث ایسا کہنا بجا ہوسکتا ہے لیکن پنجاب اور سندھ میں بھی ویسی گہما گہمی نظر نہیں آرہی جیسی عام انتخابات سے قبل ان دنوں میں نظرآتی رہی ہے، لہٰذا اگر ماحول نہیں بن رہا تو اِس کی وجہ سکیورٹی کے ساتھ ساتھ سیاسی انتشار بھی ہوسکتا ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ نون سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں میں ٹکٹوں کی تقسیم اور انٹرویوز وغیرہ کے مراحل چل رہے ہیں مگر عوام میں سیاسی و انتخابی عمل سے لاتعلقی واضح طور پر دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہے۔ کیا آٹھ فروری کو انتخابات نہیں ہوں گے؟ کیا سیاسی انتشار اپنے اثرات گہرے کرے گا یا سکیورٹی کے مسائل آڑے آئیں گے، کیونکہ اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاک فوج بیک وقت کئی محاذوں پر جنگ لڑ رہی ہے، سرحدوں پر بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے لہٰذا وہاں بھی جوان چوکس کھڑے ہیں، سرحدوں کے اندر دشمنوں کے چھپے ہوئے کارندے امن و امان تباہ کرنے کی تاک میں ہیں ، ان کے خلاف بھی پاک فوج آپریشنز کررہی ہے لہٰذا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب پاک فوج کے جوان دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش نہ کریں۔ بالفرض سکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے انتخابات کچھ دیر کے لئے ملتوی کردیئے جاتے ہیں تو افواہ ساز فیکٹریاں جو بہت سے پہلے اِس کام میں متحرک ہیں وہ اپنے پراپیگنڈا کو نیا رخ دے دیں گی جیسا کہ بعض لوگ دعویٰ کررہے ہیں کہ یکطرفہ لیول پلے فیلڈ کے باوجود عام انتخابات کے التوا میں ہی عافیت تصور کی جارہی ہے کیونکہ عوام کی انتخابی عمل سے لاتعلقی دراصل بے اعتنائی ظاہر کررہی ہے لہٰذا وہ تمام دعوے اور پیش گوئیاں جو موجودہ صورت حال کے برعکس کی جارہی تھیں وہ سبھی غلط ثابت ہوئی ہیں لہٰذا مناسب وقت کا انتظار ہی سیاسی نقصان سے محفوظ رکھ سکتا ہے وگرنہ ہار یا جیت کا تصور اِس بار یکسر مختلف ہوسکتا ہے اور اِس کے سیاسی نقصان کی صورت میں اثرات بھی دیرپا ہوسکتے ہیں۔ مگر ایسے ماہرین کی بھی کمی نہیں جو بروقت انتخابات کے انعقاد کو ملک کے سیاسی و معاشی استحکام کے لئے انتہائی ناگزیر قرار دیتے ہوئے ایسے دلائل پیش کررہے ہیں جن سے انکار قطعی ممکن نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک و قوم کے بہترین مفادمیں ہی فیصلے کئے جانے چاہئیں اور کسی معجزے کے انتظار میں قطعی نہیں رہنا چاہیے۔ کوئی بھی نیا تنازعہ موجودہ سیاسی انتشار کو مزید ہوا دے گا اور معاملات بہتری کی بجائے مزید خرابی کی طرف جائیں گے اور اِن کو ٹھیک کرنا یقیناً اتنا آسان نہیں رہے گا۔

جواب دیں

Back to top button