آج کے کالمغلام مصطفی

چیئرمین شپ سے دستبرداری مشکل لیکن درست

غلام مصطفیٰ

پی ٹی آئی کاقیام 25 اپریل1996 کو عمل میں آیا اور عمران خان گزشتہ 26 برس تک پارٹی کے چیئرمین رہے ۔ یہ بات تو واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی چیئرمین شپ کی تبدیلی محض الیکشن میں جانے کیلئے قانونی تقاضے پورے کرنے کیلئے کی گئی ہے۔عمران خان نے چیئرمین شپ سے دستبردار ی کا فیصلہ کرکے ثابت کردیاہے کہ وہ سیاست نہیں ریاست کو بچاناچاہتے ہیں۔ خان صاحب کے اس فیصلے کے بعد ایسے لوگوں کو یقیناً مایوسی کاسامنا کرنا پڑرہاہوگا جوسمجھ رہے تھے کہ خان صاحب سیاسی بصیرت کامظاہرہ نہیں کریں گے اورجذبات سے کام لیں گے اور پھر خان صاحب کو اور ان کی پارٹی کو نہ صرف الیکشن سے باہر کردیا جائے گا بلکہ ان کاانتخابی نشان ’’بلے‘‘ کو بھی ختم کردیاجائے گا اس فیصلے کے بعد وہ تمام لوگ ناکام اور مایوس ہوگئے ہونگے اور یقینی طور یہ فیصلہ پی ٹی آئی مخالف جماعتوں پر انکی جانب سے گرائے گئے کسی بم سے کم نہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اور منظر نامہ نت نئے بدلتے حالات کیساتھ ساتھ چلتا ہے، یوں سمجھ لیں کہ پاکستان کا سیاسی ماحول ہوائوں کے رخ کیساتھ ساتھ بدلتارہتاہے،یہاں کی سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں،پاکستانی سیاست میں نت نئے تنازعات کے باعث سیاسی جماعتیں ٹوٹتی اور نئی سیاسی جماعتیں وجود میں آتی ہیں۔جس طرح 9 مئی کے واقعات نے پی ٹی آئی کو پے در پے مشکلات اور الجھنوں کا شکار کر دیا اور پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ چیئرمین پی آئی ٹی عمران خان کو چیئرمین شپ کے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا۔ موجودہ حالات میں یہ فیصلہ مشکل، بڑا لیکن درست معلوم ہوتاہے ۔ قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عمران خان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو تسلیم کیااور انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا فیصلہ بالکل ٹھیک نظرآرہاہے۔
پی ٹی آئی کا نیا چیئرمین بننے سے پارٹی کاانتخابی نشان ’’بلا‘‘ بھی قائم رہے گا اور عمران خان کی غیر موجودگی میں پارٹی کسی نہ کسی طرح آگے بڑھتی رہے گی، دوسری جانب یہ بات بھی درست ہے کہ پورے پاکستان میں ووٹ عمران خان کی وجہ سے پی ٹی آئی کو ملتا رہا ہے، اب وہ چیئرمین شپ سے دستبردار ہوگئے ہیں، لیکن پھر یہی محسوس ہورہاہے کہ عوام کی اکثریت پی ٹی آئی کو ہی ووٹ دے گی، اس وقت عمران خان کو قانونی تنازعات سے سوچ سمجھ کر اور خوش اسلوبی ساتھ نمٹنے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہی خان صاحب اور ان کی پارٹی کیلئے بہتر ہے، چیئرمین شپ سے دستبرداری کافیصلہ تو درست معلوم ہوتاہے لیکن نئے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان جن کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے ان کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ دھیمے مزاج کے حامل بھی ہے اور پڑھی لکھی شخصیت بھی، اب ان کا انتخاب صحیح ہے یا غلط یہ فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔
بظاہر یہ فیصلہ مائنس عمران خان فارمولا نظرآرہاہے لیکن حقیقت میں ایسانہیں ہے بلکہ یہ خان صاحب کا سخت امتحان ہے جس سے وہ گزاررہے ہیں انہیں سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ثابت قدم رہنا ہوگا۔ پاکستانی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کو پارٹی سے مائنس کردیا گیا ہو بلکہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ ایسا ہوچکاہے۔ جیسا کہ پیپلز پارٹی کیساتھ ہوا تھا جب شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی ، اس کے بعد پیپلزپارٹی کو مرحومہ نصرت بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو نے سنبھالا جس کی وجہ سے آج بھی پیپلزپارٹی باقی ہے، اسی طرح جب ایم کیو ایم میں سے بانی ایم کیو ایم کو مائنس کیا گیاتو انہوں نے بھی اپنی پارٹی کے وجود کو بچانے کیلئے حکمت عملی اپنائی جس کے باعث ایم کیو ایم آج موجود ہے اور پھر اسی طرح مسلم لیگ(ن)کیساتھ بھی ہوا جب میاں نوازشریف کو نااہل قرار دیکر نہ صرف وزرات اعظمیٰ سے ہٹادیا گیا بلکہ پارٹی کی قیادت سے بھی دستبردارکرا دیا گیاجس کیخلاف میاںنوازشریف اپنے ہر جلسے اور جلوس میں یہ کہتے رہے کہ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ بعدازاں انہوں نے سیاسی حکمت عملی اپنائی اور اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج نہ صرف مسلم لیگ (ن) موجود ہے بلکہ آئندہ انتخابات میں اقتدار حاصل کرنے کی پوزیشن میں آچکی ہے کیونکہ نوازشریف کے وزیراعظم بننے کی راہ میں جورکاوٹیں تھیں وہ ایک ایک کر کے ختم ہوتی جارہی ہیں جس کی وجہ سے وہ دوبارہ انتخابات میں کامیاب ہوکر وزارت اعظمیٰ پر فائز ہوسکتے ہیں۔ فی الحال اس فیصلے کو پی ٹی آئی کے کارکنوں اور رہنمائوں نے اس لئے بھی قبول کرلیاہے کہ یہ فیصلہ سب کی مشاورت سے کیا گیاہے۔ اسے مائنس عمران خان فارمولا ہی کیوں ناں قرار دیا جائے لیکن موجودہ حالات میں یہ بڑی حد تک درست فیصلہ ثابت ہوگا۔کیونکہ اگر پارٹی کاوجود ہوگا تبھی آپ آگے بڑھ سکتے ہیں اور پارٹی ہی نہ رہی تو پھر آپ کیا کرسکتے ہیں؟ پی ٹی آئی کی قیادت کو دبائو برداشت کرنا چاہیے اور عام انتخابات میں بھرپور حصہ لیکر قومی سیاست میں اپنا مثبت کردار ادا کرناچاہیے ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ پی ٹی آئی نے یہ فیصلہ انتخابات میں بائیکاٹ سے بچنے کیلئے کیاہوگا تاکہ دوسری سیاسی جماعتوں کو میدا ن کھلا نہ میسر آجائے۔
میں سمجھتاہوں کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے یہ فیصلہ پارٹی کی غیر معمولی تقسیم کو روکنے کیلئے سب کی مشاورت سے ہی کیا ہوگا، لوگ کچھ بھی کہیں لیکن بظاہر یہی محسوس ہورہاہے کہ یہ فیصلہ پارٹی کو بند گلی میں جانے سے بچانے کیلئے کیا گیا ہے اور اب اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی، جوکرنی بھی چاہیے، بیرسٹر گوہر صاحب کو آگے لانے کا فیصلہ قانونی پیچیدگیوں سے بچنے اور اسٹیبلشمنٹ سے معاملات ٹھیک کرنے کیلئے بھی کیا گیا ہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق چیئرمین شپ کی تبدیلی پی ٹی آئی کے دستور ( ترمیم شدہ 2022) کے مطابق کی گئی ہے جس کے مطابق پارٹی چیئرمین کو سیاسی اور انتظامی طور پر سب اختیارات دیئے گئے ہیںجس میں پارٹی کے دیگر عہدیداروں پر نامزدگی،پارٹی کیلئے سیاسی اور نظریاتی گائیڈ لائن ،ہدایات اور احکامات جاری کر سکتا ہے،اس کے ساتھ چیئرمین پی ٹی آئی کو ایک اہم دستوری اختیار حاصل ہے کہ وہ مشکل حالات سے نمٹنے کیلئے کوئی بھی فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں، پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق بیرسٹر گوہر کی نگران چیئرمین کی حیثیت سے تقرری محولہ دستوری اختیارکے تحت کی گئی۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے قانونی مشیر سینیٹر بیرسٹر علی ظفر کہتے ہیں کہ پارٹی دستور میں چیئرمین کو اختیار دیا گیا کہ وہ مشکل حالات میں مناسب فیصلے کر سکتے ہیں اس لئے حالات کے مطابق فیصلہ کیا گیاہے۔ ان کامزید کہناتھا کہ یہ مائنس ون ہے نہ کوئی بغاوت ہے،ہم نے قانونی تقاضے پورے کرنے ہیں۔
دوسری جانب انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اہل قرار دلوانے اور وزارت اعظمیٰ پر چوتھی بار فائز ہونے کیلئے میاں نوازشریف کے راستے صاف کئے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں بریت حاصل ہوگئی ہے۔ اگر نواز شریف کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس غلط بنایا گیا تو کیس بنانیوالے اور سزا دینے والوں کا احتساب بھی ہونا چاہئے۔جس طر ح میاں صاحب کو واپسی پر پروٹوکول دیا گیا اور کیسز سے بری کیا جارہے وہ سب اس نظام کا ہی کمال ہے ۔عمران خان کو انصاف ضرور ملنا چاہئے،کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہئے سب کا فیئر ٹرائل ہونا چاہئے،ہماری عدالتوں میں فیصلے بہت تاخیر سے ہوتے ہیں، اگر عدالتیں فوری اور انصاف پر مبنی فیصلے کرنا شروع کردیں توکئی مسائل خودبخو حل ہوسکتے ہیںجبکہ قانونی پیچیدگیوں کے باعث بھی کئی مقدمات التوا کاشکار ہوجاتے ہیں، ججزکی کمی بھی ایک مسئلہ ہے،جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف، آصف علی زرداری،عمران خان کیخلاف بھی مقدمات بنائے گئے اور تینوں جیل میں قید بھی رہے بلکہ عمران خان کی جیل یاترا توابھی شروع ہوئی ہے، بہرحال ملک میں قانون، آئین پاسداری ہونی چاہیے اور سب کو انصاف ملنا چاہیے۔ عدالت میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے والے جج کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اگر کوئی جج پوری ایمانداری اور انصاف کے ساتھ ایک فیصلہ کرتاہے تو وہ فیصلہ اس کی 60سال کی عبادت سے افضل ہے۔ اس لئے ججز پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کیونکہ جن ممالک کی عدالتیں آزاد ہیں وہاں آئین، قانون اور انصاف کا بول بالا ہے اور جس معاشرے میں انصاف نہیں ملتا وہاں نفرتیں، دشمنیاں اور برائیاں اور بغاوتیں جنم لیتی ہیں۔ اب یہ فیصلہ ارباب اختیار کو کرنا ہے کہ ہمیں انصاف پرمبنی معاشرہ چاہیے اور یا پھر برائیوں اور نفرتوں کی گمراہ کن تاریکی میںڈوبا ہ ہوا بے کار اور بے حس معاشرہ ۔ اس بارے میں ذرا نہیں بلکہ پورا سوچئے۔

جواب دیں

Back to top button