ایڈیٹوریل

عام انتخابات کی تیاریوں میں تیزی

ملک میں عام انتخابات آٹھ فروری کو ہونے جارہے ہیں، الیکشن کمیشن تیزی کے ساتھ اپنی تیاریاں مکمل کررہا ہے، ہر مرحلے کو مقررہ وقت میں مکمل کیا جارہا ہے۔ مگر اسی دوران خبر آئی کہ وفاقی بجٹ میں عام انتخابات 2024ء کے لئے مختص رقم جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن نے نوٹس لے کر سیکرٹری خزانہ کو الیکشن کمیشن میں طلب کر لیا، مگر اِس کے فوری بعدسیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے انتخابات کے لئے فنڈز جاری کرنے کی یقین دہانی کرا دی اور گذشتہ روز وزارت خزانہ نے اعلامیہ بھی جاری کردیا کہ عام انتخابات کے اخراجات کے لئے الیکشن کمیشن کو 17 ارب 40 کروڑروپے جاری کردیئے گئے ہیں۔ یوں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق ایک نئی بحث چھڑنے سے رہ گئی اور الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کردیئے گئے۔ الیکشن کمیشن نے پولنگ سٹیشنوں پرفوج کی تعیناتی کے لئے وزارت داخلہ کومراسلہ بھیج دیا ہے، تاحال اِس سلسلے میں وزارت خزانہ کی طرح فوری جواب نہیں آیا لیکن اِس تاخیر کی وجہ صاف ہے کیونکہ خطے میں تیزی سے صورت حال بدل رہی ہے، اِس لئے پاک فوج کے جوان سرحدوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اِس کے علاوہ ملک بھر میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لئے بھی خصوصی آپریشنز کئے جارہے ہیں جن میں نیم فوجی دستوں اور پولیس کی بھی مدد حاصل ہوتی ہے تاہم جن علاقوں میں زیادہ خطرات ہیں وہاں پاک فوج کے جوان ہی آپریشن کررہے ہیں۔ وزارت داخلہ سے کہاگیا ہے کہ اِس ضمن میں سات دسمبر تک آگاہ کردیں یقیناً اِس سے پہلے بھی وزارت داخلہ آگاہ کرسکتا ہے۔ اِس لئے عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق جن شکوک و شبہات کا جہاں جہاں سے ذکر کیا جارہا ہے، ہمارے خیال میں وہ درست نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان قریباً قریباً تمام تیاریاں مکمل کرچکا ہے، شیڈول جاری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں میں تیزی آجائے گی۔ میاں محمد نوازشریف وطن واپسی کے بعد ملکی سیاست میں مکمل فعال ہیں، چھوٹی سیاسی جماعتوں کا حکومت سازی میں ہمیشہ اہم کردار رہا ہے لہٰذا قبل ازوقت ہی میاں نوازشریف اِن کے ساتھ سیاسی معاملات طے کررہے ہیں دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی بھی ورکرز کنونشن کے نام پر انتخابی جلسوں کا آغاز کرچکی ہے۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات جن میں بیرسٹر گوہر چیئرمین کے طور پر سامنے آئے ہیں، اِن کو عدالت میں چیلنج کیا جاچکا ہے اور سیاسی مخالفین بھی اِس انتخابی عمل کی شفافیت پر کڑی تنقید کررہے ہیں لیکن بہرحال ملکی سیاست دان انتخابی عمل کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات ماضی کے انتخابات سے یکسر مختلف ہونے چاہئیں، اس بار زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے اور اگلے پانچ سال کے لئے اُس حکومت کو پوری آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ دیا جانا چاہیے، اس دوران کامیاب نہ ہونے والی سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں کو سدھاریں اور بہترین منشور کے ساتھ اگلے انتخابات کی تیاریاں کریں مگر کسی بھی موقعے پر انتخابی عمل کو مشکوک نہ بنایا جائے تاکہ عام ووٹر انتخابی عمل اور سیاسی قیادت سے مزید دوری اختیار نہ کرے۔ کیونکہ اعدادو شمار یہی بتاتے ہیں کہ ووٹرز کی بڑی تعداد انتخابی عمل سے دور رہتی ہے اور وہ اپنا قیمتی ووٹ کسی جماعت کو دینے کی بجائے وہ دن گھر پر رہ کر گزارنے کو ترجیح دیتی ہے بلاشبہ سیاسی جماعتیں اِس حقیقت کو بخوبی سمجھتی ہیں اور مختلف مواقعوں پر اِس کا اظہار بھی کرتی ہیں مگر اِس کے باوجود اپنا طرز سیاست بدلتی ہیں اور نہ ہی منشور میں ایسی چیزیں شامل کرتی ہیں جو لاتعلق ووٹرز کو گھر سے پولنگ سٹیشن پر لانے کا باعث بنیں۔ دوسری طرف مرکز اور صوبوں بالخصوص پنجاب میں نگران حکومت کی کارکردگی قابل تعریف ہے، وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی جس سرعت کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں اور عوامی فلاح کے کاموں میں پیش پیش ہیں، واقعی ان کی کارکردگی قابل تحسین اور عوام میں بھی سراہی جارہی ہے کیونکہ بلاناغہ وہ صوبے کے کسی نہ کسی چھوٹے شہر میں پہنچ کر اصلاح احوال کے لئے کاموں میں مشغول نظر آتے ہیں۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی وزارت اعظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اِس طرح کام کررہے ہیں جیسے منتخب وزیراعظم کو داخلی و خارجی معاملات فوری اورسرعت کے ساتھ نمٹانے کا ٹاسک ملا ہو۔ اِس لئے نگران حکومتوں کی کارکردگی کا اعتراف کیاجانا ضروری ہے۔ جہاں تک انتخابی مہم کے لئے یکساں مواقعے فراہم کرنے کاتعلق ہے تو بلاشبہ ہر دور میں ایسی ہی آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔ ہر پارٹی کو قبل از انتخاب وثوق ہوتا ہے کہ اِس کا ووٹ بینک کیا ہے اور وہ قریباً کتنی نشستیں حاصل کرے گی اسی طرح سیاسی پارٹیوں کو متوقع حکومت کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اِس بار عوام کی توجہ کس پارٹی کی جانب ہے لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ اِن حقائق کو قبول کرکے انتخابی عمل میں شامل ہوا جائے اسی لئے اپنے ووٹرز کومطمئن رکھنے کے لئے قبل از انتخاب ہی ایسے شوشے چھوڑے جاتے ہیں جن سے انتخابی عمل سے متعلق شکوک و شبہات جنم لینا شروع ہوجاتے ہیں یوں الیکشن کمیشن اور اِس کی انتخابی عمل میں معاونت کرنے والے لاکھوں افرادکی محنت کا صلہ انتخابی عمل کو مشکوک بناکر دیاجاتا ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ صرف ایک ہی جماعت نے اکثریت حاصل کرنا ہوتی ہے مگر سبھی جیت کے دعویدار ہوتے ہیں اور سبھی انتخابی عمل پراُنگلیاں اٹھاتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں جمہوری اقدار کی روایات کو پروان چڑھانا چاہیے اور ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھناچاہیے تبھی ووٹرز کا اعتماد بحال ہوگا، دوسری طرف سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مفاد کی بجائے اجتماعی مفاد کے فیصلوں کو اہمیت دیں جس میں ملکی مفاد سرفہرست ہو۔ بہرکیف ہر نئے دن کے ساتھ ہم انتخابی عمل کی جانب بڑھ رہے ہیں اِس لئے بہترہوگاکہ سیاسی جماعتیں انتخابی عمل کو شفاف اور غیر متنازعہ بنانے کی بھی بات کریں اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب جلسوںاور پریس کانفرنسز میں شکوک و شبہات کا اظہارکیا جائے اورنہ ہی کسی کو لاڈلہ قرار دیاجائےکیونکہ جب رائے عامہ کسی طرف جاتی ہے تو سبھی لاڈلہ اور سلیکٹڈ جیسی گردان شروع کردیتے ہیں جو قطعی مناسب نہیں۔

جواب دیں

Back to top button