ایڈیٹوریل

غزہ کی صورتحال اور جنگ پھیلنے کے خطرات

عارضی جنگ بندی کے بعد غزہ میں بڑی خونریزی شروع ہوگئی ہے۔ جنگ بندی سے پہلے اسرائیل کو امریکہ کی مکمل پشت پناہی اور عسکری مدد حاصل تھی امریکی جنگی بحری بیڑہ اسرائیل کی مدد کو پہنچ چکا تھا مگر اب عارضی جنگ بندی کے بعد برطانیہ نے بھی اسرائیل کی مدد کے لئے اپنا بحری بیڑہ پہنچادیا ہے۔ یوں امریکی و برطانوی بیڑے بحیرہ احمر میں موجود رہ کر اپنی تمام عسکری وسائل اسرائیل کی مدد کے لئے استعمال کریں گے۔ جنگ بندی کے بعد محض ایک ہی دن میں اسرائیل نے ان گنت حملوں کئے اور سات سو سے زائد نہتے فلسطینیوں کو شہید کردیا، شہید ہونے والوں میں مردوخواتین اور بچے شامل تھے، جو جنگ کی تباہ کاری سے بچنے کے لئے دور دراز جاچکے تھے مگر اسرائیل نے انہیں بھی اپنی بربریت کا نشانہ بنایاتاہم حوثی باغیوں نے امریکہ کے بعد برطانوی بحری جہازوں پر بھی ڈرونز سے حملے شروع کردیئے ہیں۔ پس یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دور حاضر کے تمام یزید مظلومین کے خلاف یکے بعد دیگرے منظر عام پر بھی آرہے ہیں اور اپنی یزدیت کا مظاہرہ بھی کررہے ہیں حالانکہ اِن کے عوام اپنی حکومتوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں کیونکہ عوام مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں جبکہ امریکہ اور برطانیہ سمیت امریکی اثرورسوخ کے تابع ممالک اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اگرچہ ان ممالک کی تعداد زیادہ نہیں لیکن پھر بھی اِس جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دے کر یہ ممالک جنگی جرائم میں بھی برابر کے حصہ دار بن رہے ہیں۔ غزہ کے نہتے مسلمان کفر کے سامنے ہتھیار نہیں ڈال رہے، ان کے بچوں نے مائوں کی گود سے شہادت کا درس لیا ہے، اور شہادت ہی ان کی آرزو ہے مگر ہم اپنا درس بھول چکے ہیں جو قرآن اور سید الشہداحضرت امام حسینؓ اور ان کے جانثاروں نے کربلا میں دیا تھا۔ دوسری طرف عالم اسلام مصلحتوں کا شکار ہوکر خاموش تماشائی کے طور پر جنگ بندی کے مطالبات پر ہی اکتفا کئے ہوئے ہے۔ اسی تناظرمیں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بالکل درست کہا ہے کہ اگر غزہ میں بمباری بند نہ ہوئی تو پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، شاید پھر سرحدی بندشیں بھی ختم ہو جائیں اور بلاشبہ ایسا ہوتا نظر آبھی رہا ہے کیونکہ غزہ کے فلسطینی جس بربریت کا سامنا کررہے ہیں وہ ناقابل برداشت ہونے کے ساتھ ساتھ لرزہ خیز بھی ہے۔ مگر اب تک اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والی طاقتوں کے مذموم عزائم سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اِس جنگ کو جانتے بوجھتے ہوئے عالمی جنگ بنانا کی کوشش کی جارہی ہے اسی لئے اتنی بربریت کی جارہی ہے تاکہ مسلمان ریاستیں اِس بربریت کے خلاف جنگ کا حصہ بن جائیں اور فلسطینیوں کا ساتھ دے کر اسرائیل کے ناپاک وجود کا خاتمہ کردیں ۔ کیونکہ امریکہ کا فوری اسرائیل کی مدد کو پہنچنا اور برطانیہ کا بھی فلسطینیوں کی نسل کشی میں حصہ دار بننا سراسر جنگ کو پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے، اگر امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کے مددگار بن کر آسکتے تو مسلمان، مسلمانوں کے مدد گار کیوں نہیں بن سکتے؟ اسی لئے نگران وزیراعظم انوار الحق کی گفتگو قابل غور اور تشویش کو بڑھاتی ہے کہ جنگ پھیلی تو ایک دو نہیں بلکہ پورا خطہ اور شاید پوری دنیا کا امن خطرے میں پڑ جائے مگر اِس کے ذمہ دار وہی ہوں گے جو جنہوں نے اِس فتنے یعنی اسرائیل کے ناپاک وجود کو فلسطین کی مقدس سرزمین پر زبردستی جگہ دی، پھر مسلمان ریاستوں کیخلاف اس کو مکمل عسکری مدد دی اور ایک بار پھر اِس کی مدد کو آن پہنچے ہیں۔ امریکی مفادات کبھی ڈھکے چھپے نہیں رہے، مگر بڑی طاقت ہونے کی وجہ سے امریکہ کا جو کردار ابتک اقوام عالم کے سامنے آچکا ہے، وہ انتہائی شرمناک ہے یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام بھی اپنی حکومت کے اسرائیل کے معاملے پر سراپا احتجاج ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس خطرناک کام کی پہل امریکہ نے کی ہے اور برطانیہ نے بھی اِس جنگ میں کود کر خود کو جانب دار ظاہر کردیا ہے، اب اگر اِس جنگ میں حالات خرابی کی طرف جاتے ہیں تو اِس کے ذمہ دار وہی ہوں گے جو اب کھل کر اسرائیل کا ساتھ دینے کے لئے جنگ میں کود پڑے ہیں، مسلم امہ کے لئے یہ آزمائش کا وقت ہے کہ وہ اِس خطرناک صورتحال میں کیا دیرپا فیصلہ کرتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button