آج کے کالمحافظ محمد قاسم مغیرہ

جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے

حافظ قاسم مغیرہ

5 دسمبر 2018 کی یخ بستہ شب مطالعہ سے فارغ ہوکر بستر پہ دراز ہوا ہی تھا کہ موبائل کی بیل بجی۔ سکرین پہ محمد علی کا نام اُبھرا۔ کال سنی تو السلام و علیکم کی آواز سے ہی معلوم ہوگیا کہ محمد علی کے بجائے کوئی اور بول رہا ہے۔ کال کرنے والے نے بتایا کہ آپ کے دوست محمد علی شیخ آج شام وفات پاگئے۔ نماز جنازہ کل ظہر کی نماز کے بعد ادا کی جائے گی۔ محمد علی کی وفات کی خبر سن کر دل کی دھڑکن تھم گئی۔ تاحد نظر ویرانی کے سوا کچھ سجھائی نہ دیا۔ پھر دل کو سمجھانے کے لئے ایک طفلانہ خیال ذہن میں آیا کہ ہوسکتا ہے کسی نے مذاق کیا ہو، لیکن وہ مذاق نہیں تھا۔ سچ تھا کہ محمد علی وفات پاگیا ہے۔ رات کا ایک کثیر حصہ بے خوابی میں کٹا۔ آخری پہر کی نیند کے بعد بیداری پر خدا کا شکر ادا کیا کہ علی کی وفات کی خبر بس ایک ڈرائونا خواب تھی، لیکن اس خبر پر یقین کیے بغیر بھی چارہ نہیں تھا۔ علی کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے گوجرانوالہ سے اسلام آباد روانہ ہوا۔ علی کے گھر کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ سوگ وار فضا کیا ہوتی ہے۔ اس سے قبل محض لفظوں کی حد تک شناسائی تھی۔ میں علی کے دولت کدے پر حاضر ہوا۔ علی وہاں موجود تھا۔ چہرے پر اطمینان اور لبوں پر تبسم۔ مزاج کے ٹھہرائو کا عکاس چہرہ۔ آنکھیں کہ جیسے ذرا سا سستانے کے لئے بند کی ہوں ۔ بس ابھی اٹھے گا حافظ شیرازی کے اشعار سنائے گا۔ شیکسپیئر اور ملٹن کا ذکر چھیڑے گا۔ سننے والے بھی موجود تھے۔ علی بھی وہیں تھا۔ سب کچھ تھا لیکن علی کے جسم سے روح کا رشتہ منقطع ہوچکا تھا۔ نماز جنازہ میں شرکت کے لئے لوگ جوق در جوق آئے۔ نماز جنازہ کے بعد تدفین کے لئے جب قبرستان روانہ ہوئے تو رستے میں وہ میرج ہال نظر آیا جہاں اڑھائی برس قبل علی کی دعوت ولیمہ تھی۔ پھر اشک فشانی کے باعث وہ منظر دھندلا گیا۔ جب علی کو سپرد خاک کیا گیا تو ذہن کے نہاں خانوں سے ثاقب لکھنوی کا ایک شعر ابھرا
مٹھیوں میں خاک لیکر دوست آئے وقت دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے
قریباً ساڑھے سات برس علی سے رفاقت رہی۔ پہلی ملاقات نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز میں ایم اے انگلش کے پہلے سمسٹر میں ہوئی۔ علی کو بے شمار اوصاف سے متصف پایا۔ اس کی شخصیت ظاہری اور باطنی ، ہر دو طرح کے حسن سے مزین تھی۔ کیا کوئی شخص اتنا جامع
الاوصاف بھی ہوسکتا ہے کہ خوش مزاجی، خوش لباسی، بلندی کردار، شائستگی، علم و فضل، عاجزی، ذہانت، فطانت، ابلاغی مہارتیں سب اس میں سمٹ آئی؟ علی ایسا ہی تھا۔ اس کی گفتگو میں ایک سحر تھا۔ کلام میں شائستگی اتنی کہ گویا اس کا مقصد تخلیق ہی شائستگی کا فروغ ہو۔ ایک ایک لفظ تہذیب کے پیمانے سے ماپا ہوا۔ کوثر و تسنیم سے دھلا ہوا۔ وہ ہر موضوع پر بے تکان بولتا۔ سننے والے اس کے افکار کی خوشہ چینی کرتے۔ شستہ اور رواں انگریزی لکھنے میں اپنی مثال آپ۔ مشکل سے مشکل بات کو آسان لفظوں میں سمجھانے پر بلا کی قدرت رکھتا تھا۔ شرافت کا پیکر۔ لوگوں کو قریب سے دیکھنے پر عموماً ان کی شخصیت کے منفی پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔ ایسا ہر انکشاف مایوسی کا باعث بنتا ہے لیکن علی کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ اسے جتنا قریب سے دیکھا وہ اتنا ہی اُجلا نظر آیا۔ ہر ملاقات میں اس کی شخصیت کے مزید روشن پہلو سامنے آئے۔ اس نے اپنی تمام حیثیتوں سے انصاف کیا۔ ایک طالب علم کے طور پر سیکھنے کا دھنی، ایک ہم جماعت کے طور پر ہمہ وقت تعاون پر آمادہ۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کم و بیش 6 برس تدریس سے وابستہ رہا۔ اس کے رفقا کار اور طلبا نے بھی گواہی دی کہ ایسے لوگ کم کم ہی میسر آتے ہیں۔ اس نے سینکڑوں طلبا کا
مستقبل سنوارا، کتنوں کو نکھارا اور محنت پر اُبھارا، کردار سازی اس کی تدریس کا جزو لاینفک تھا۔ وہ کمرہ جماعت میں درسی کتب کے ساتھ ساتھ کتاب زیست بھی پڑھاتا۔ طلبا کو جینے کا ڈھنگ سکھاتا۔ مذہبی اقدار کو سختی سے اپنائے ہوئے۔ کتب بینی کا ذوق ایسا کہ ادب، فلسفہ، مذہب، تاریخ اور سیاست کا گہرا مطالعہ کر رکھا تھا۔ اقبال پر فدا۔ اقبال کے سیکڑوں اشعار ازبر۔ شعر و ادب کا ذوق انتہائی اعلیٰ۔ تحقیق و جستجو کا ایسا دھنی کہ مقالے کے لئے اس موضوع کا انتخاب کیا کہ جو کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہ آئے۔ محسن حامد کے ناول
Reluctant Fundamentalist کے تناظر میں شناخت کا بحران( Identity crisis) اس کے مقالے کا عنوان تھا۔ ابھی اسے بہت سے کمالات دکھانا تھے کہ اس کا وقت رخصت آگیا اور وہاں چل دیا کہ جہاں جا کر کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔ اگر تقدیر اسے مہلت دیتی تو وہ آسمان دانش و بینش کا ایک درخشاں ستارہ بنتا لیکن جب بلاوا آجائے تو ایک لمحے کی بھی مہلت نہیں ملتی۔ اجل زیر غور منصوبوں اور ناآسودہ خواہشوں کی تکمیل کا انتظار نہیں کرتی۔ خوابوں کی تعبیر کی مہلت نہیں دیتی۔
رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے
جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے
( سعود عثمانی)

جواب دیں

Back to top button