آج کے کالمبسمہ عنایا

شہزادہ سلیم کی انارکلی

بسمہ عنایا

سردیاں شروع ہوتے ہی شادیوں کا موسم بھی شروع ہوجاتا ہے کیونکہ گرمی اور حبس کے مہینے میں ہر کوئی پسینے میں شرابور رہتا ہے خواہ تقریبات میں کتنا ہی بہترین اہتمام کیوں نہ ہو۔ بہرکیف کہتے ہیں کہ شادی کا لڈو جس نے کھایا وہ بھی پچھتایا اور جس نے نہ کھایا وہ تو اور بھی پچھتایا ۔ اس راز کو جاننے کے لئے ہم نے نجانے کتنے دانشوروں کو کھو دیا کیونکہ شادی کے بعد تو ان کی زبانوں کو خوف کے تالے لگ گئے اور یہ راز آفیشل شادی ایکٹ (جس میں شادی شدہ افراد اپنی ازدواجی زندگی کو خوشحال رکھنے کے لئے حلف اٹھاتے ہیں) کے تحت ہمیشہ اور ہر گھر میں فی الفور نافذ العمل رہا ہے۔
بہرکیف شادی کا سیزن ہو اور بازاروں میں چمکتے دمکتے ملبوسات، زیورات، جوتے اور ہزاروں آرائش کی اشیاء نظر نہ آئیں ہو ہی نہیں سکتا ۔ انارکلی چلے جائیں تو ہر جگہ کام دار اور ایک سے بڑھ کر ایک جوڑا نمائش پر دکھائی دیتا ہے۔ خیال آتا ہے انارکلی تو چلو شہزادہ سلیم کی محبت میں دیوار میں چنوا دی گئی مگر اس جیسی ہزاروں انارکلیاں آج اسی بازار سے اپنے خاص دن کیلئے لباس چننے(انتخاب) کو ترجیح دیتی ہیں تاکہ آج کا شہزادہ سلیم اپنی محبت کو نکاح کی پاکیزگی میں سنورے دیکھ سکے۔ دلہن کے لباس کا انتخاب کرتے ہوئے بہت ساری خوبیوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے، ایک تو سرخ رنگ کے کسی شیڈ کا ہونا چاہیے چونکہ یہ رنگ دلہن کی ملکیت سمجھا جاتا ہے اور مجال ہے کہ کوئی اور لڑکی سرخ رنگ پہننے کی گستاخی کرسکے۔ ابھی اگر رنگوں کی بات ہو رہی ہے تو یہ قابل ذکر ہے کہ چند خواتین اپنے نکاح کے دن مختلف رنگوں کے ساتھ تجربہ کرنے کی خواہش مند ہوتی ہیں مگر لوگ کیا کہیں گے، کا پھندا کبھی بھی حلق سے ایسی آواز باہر نہیں آنے دیتا۔
ایک خاتون نے سوشل میڈیا پر ارمان ظاہر کیا کہ اگر اسے اجازت ملتی کہ وہ اپنی مرضی کا کوئی بھی رنگ پہن سکتی ہے ، آخر اس کے نکاح کے دن کو اس کی مرضی چلنی چاہیے تھی تو وہ سیاہ رنگ کا انتخاب کرتی۔ اس نے مزید لکھا کہ اسے اپنے ہی گھر والوں نے تنقید کا نشانہ بنایا کہ سیاہ تو موت کی علامت ہے، کیا تم اپنے نکاح سے خوش نہیں ہو یا ہمارا مذاق بنوانا چاہتی ہو۔ ان جذباتی جملوں کے بعد اس خاتون نے اپنی حسرت کو دل میں ہی دفن کر لیا جیسا کہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے ۔ ایک مشہور اداکار نے پنجابی میں کیا خوب کہا ہے’’ کڑیاں نہ دھکا کرنا اپنا کلچر ہے کیونکہ کڑیاں تے کلچر سانبھے سانبھے جا سکتے‘‘۔کہا جاتا ہے کہ عورت، عورت کی دشمن ہے، اس جملے میں کوئی نہ کوئی سچائی تو ہو گی کہ ہمارے دانشور اورڈرامہ نگار اس بات کی یقین دہانی کرتے ہیں کہ ساس بہو، دیورانی جیٹھانی ، نند بھابھی کے درمیان جھگڑے اُجاگر کئے جائیں کیونکہ خواتین جہاں بھی ہوں گی ، وہاں غلطی سے بھی امن نہیں ہو سکتا ۔
شادی کا ذکر کر رہے تھے تو یہاں پر ہی ایک مثال موجود ہے جس سے یہ سچائی ثابت ہو سکتی ہے، گھر میں سب سے بڑی بیٹی کی شادی دھوم دھام سے کی جاتی ہے، نیا جوڑا خریدا جاتا ہے۔ مگر جیسی ہی شادی ختم ہوتی ہے، اس جوڑے کو قیمتی خزانہ ہیرے جواہرات کی مانند سنبھال لیا جاتا ہے۔ خزانہ تو پھر بھی کسی نہ کسی جگہ استعمال ہو جاتا ہے کہ خاندانی مشکلات آئیں تو خاندانی سونے کے کنگن بیچ کر آسانیاں خرید لی جائیں ۔ اس کے برعکس ایک دفعہ پہنا شادی کا جوڑا دوبارہ کہاں پہنا جائے ، ایسی بھول بھلیاں ہے کہ ودیا بالن بھی اس کے جواب میں چکرا جائے۔
پاکستانی روایات کے مطابق جس قطار سے آپ نے اس دنیا میں قدم رکھا ہے ، اسی کی پیروی کرتے ہوئے شادی کرنے کا حق ہے۔ یہ جس قدر پختہ اصول سمجھا جاتا ہے، بس قانونی طور پر اس کی خلاف ورزی پر سزا کا تعین کرنا رہ گیا ہے، چونکہ بڑی بہن کی شادی ہو چکی ہے، اس کے بعد والے بھائی یا بہن کی باری آتی ہے۔ پھر سے نئے لباس کے لئے انارکلی کی گلیوں کا رخ کیا جاتا ہے، مگر بڑی بہن کو اچانک کومے سے اُٹھی انڈین ڈراموں کی اداکارہ کی طرح یاد آتا ہے کہ اس کے تو صندوق میں پہلے ہی کام دار کپڑے اس کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ اگر ان کی زبان ہوتی تو وہ شاید یہ گانا بھی گنگناتے کہ’’ اپنا ٹائم آئے گا ‘‘‘ اور شاید اسی وقت کے منتظر ہوتے ہیں کہ گھر کے کسی اور فردکے لئے شہنائیاں بجیں تو انہیں بھی تازہ ہوا لگنا نصیب ہو۔ بس یاد داشت کا واپس آنا ہوتا ہے کہ ان کپڑوں کو نکال لیا جاتا ہے اور بڑی بہن چھوٹوں کی زندگی میں دخل اندازی کا فرض نبھاتے ہوئے انہیں زیب تن کر لیتی ہے۔ ایسی صورتحال بنتی ہے کہ چھوٹی بہن یا بھابھی دونوں کو سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ، ان کے دن کے رنگ میں بھنگ تو ڈل چکی ہوتی ہے لیکن یہ ایسا سلسلہ چلتا ہے کہ یہ ہی خاتون پھر کسی اور نزدیکی خاتون کے خاص دن پر اپنے شادی کے جوڑے نکال لیتی ہے۔ اب تو شادیوں میں ایک نئی روایت چل پڑی ہے جس کے تحت دلہن کے لئے ہائر کی گئی پارلر والی سے پورے خاندان کی خواتین میک اپ کرا لیتی ہیں جس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ساری ایک جیسی دِکھ رہی ہوتی ہیں جیسے دلہن کی زیروکس کاپی نکلوائی ہو۔ اس ساری بحث کے چند اہم نکتے یہ ہیں کہ شادی کا جوڑا خریدنے کے بجائے رینٹ پر لیں تا کہ ایک تو بجٹ کو راحت ملے اور دوسرا پاکستانی ڈراموں کا یہ تاثر کہ عورت عورت کی دشمن ہے وہ ٹوٹے۔ شادی کے موقع پر صرف دلہن کو سب سے زیادہ خوبصورت دکھنے کا حق ہونا چاہیے تا کہ وہ اپنا خاص دن خاص محسوس کر سکے۔ آخری مشورہ زرا تحمل سے پڑھیں اور دل کرے تو عمل بھی کر لیں، دلہن کو اپنی مرضی کا رنگ پہننے کی آزادی دیں،چاہے وہ سیاہ رنگ ہی کیوں نہ پہننا پسند کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button