ماحولیاتی چیلنجز اور ترقی پذیر ممالک

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو شدید ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ یہ خطرہ شدید موسمی حالات جیسے شدید گرمی کی لہر، سیلاب، خشک سالی اور سموگ کا سامنا کرنے میں واضح ہوتا ہے۔ ان حالات نے ملک کی معیشت، زراعت اور صحت کے شعبے پر نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کا معاشی نقصان مسلسل بڑھ ہا ہے اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے اندازہ لگایا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کا معاشی نقصان 2050 تک اس کی جی ڈی پی کا 9-14 فیصد ہو سکتا ہے۔ اس لئے پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لئے اقدامات کرے۔پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے کے لئے متعدد اقدامات کیے ہیں۔کئی منصوبے شروع کئے گئے ہیںجن کا مقصد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنا، قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دینا اور جنگلات میں اضافہ ہے لیکن اِن تمام اقدامات کو اِس لئے ناکافی کہا جاتا ہے کیونکہ پاکستان ایک فیصد بھی گرین ہائوس گیسز پیدا نہیں کرتا مگر موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدیدمتاثرہ ممالک میں پانچویں نمبر پرہے۔ گزشتہ سال پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے تباہ کن سیلاب کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ سیلاب کی وجہ سے 33 ملین سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ انسانی جاؒنوں اور انفراسٹرکچر کی تباہی ہوئی اور بلاشبہ متاثرہ افراد بھی سنبھل نہیں سکے۔ لوگوں کے گھر، کاروبار، مویشی، کھیت سب کچھ تاریخ کے بدترین سیلاب میں بہہ گیا، یہاں تک کہ لوگوں کے پاس خوراک اور تن ڈھانپنے کے لئے کپڑے نہ تھے، یقیناً اتنی تباہی کے بعد کسی متوسط گھرانے کو دوبارہ سنبھلنے کے لئے سالہا سال اور وسائل درکار ہوں گے، جن لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھی، ان کی تیار فصلیں سیلابی ریلے میں بہہ گئیں، جو مویشیوں سے زندگی کا نظام چلاتے تھے، اِن کے مویشی اِن کی نظروں کے سامنے سیلاب میں بہہ گئے، سر پرچھت رہی نہ ہی پیروں تلے زمین، اسی طرح انفراسٹرکچر کا بڑا نقصان ہوا، سڑکیں، پل، کاروبار، مواصلات سب کچھ سیلاب کی نذر ہوگیا اِس کے بعد گزشتہ سال COP-27 میں، نقصان اور نقصان کے فنڈ کا اعلان کیا گیا لیکن قبل ازیں پاکستان نے کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ پاکستان کو آلودگی ختم کرنے کے لئے وسائل اور جدید ٹیکنالوجی دی جائے تاکہ ہم جلد ازجلد اِس مشکل صورت حال سے باہر نکل سکیں کیونکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید خطرات کا سامنا ہے۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک بالخصوص پاکستان کے مصائب کی تلافی کرنے کی ضرورت ہے جو ترقی یافتہ ممالک کی صنعت کاری کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان چونکہ معاشی بحران سے گزر رہا ہے اِس لئے پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی مدد کے بغیر اپنے وسائل کے ساتھ اِس مشکل سےباہر نہیں نکل سکتا۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے بحران کی شدت کو اجاگر کرتے ہوئے بڑھتے ہوئے چیلنج سے نمٹنے کےلئے ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی مالیات ، صلاحیت سازی اور ٹیکنالوجی سمیت نفاذ کے مناسب ذرائع فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ وزیراعظم اِن دنوں دبئی میں ہونے والی ورلڈ کلائمیٹ ایکشن سمٹ کے سلسلہ میں موجود ہیں ۔ وزیر اعظم نے کلائمیٹ فنانس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کی مالی ضروریات 100 بلین امریکی ڈالرز سے کہیں زیادہ ہیں۔ وزیر اعظم نے ترقی پذیر ممالک کے لیے قابلیت سازی کی بہتر فراہمی کے ساتھ ساتھ ثابت شدہ موسمیاتی ٹیکنالوجیز کی منتقلی پر بھی زور دیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات کا شکار ممالک بالخصوص پاکستان کی خصوصی اور فوری مدد کرنی چاہیے ، کیونکہ ابھی خطرات جوں کے توں ہیں، پاکستان سموگ کی خطرناک صورتحال کا سامنا کررہا ہے، اِس سے باہر نکلے تو موسمیاتی تبدیلیوں سے کوئی نئی مشکل سامنے آجائے گی۔