آج کے کالماحمد خان

قانون کے گول چکر

احمد خان

کم وپیش آج سے پانچ چھ سال پہلے مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف قانون کے نر غے میں تھے بلکہ یوں کہیے کہ قانون کے شکنجے میں پھنسے تھے ، قصہ کوتاہ پانامہ سے شروع ہوا اور پھر اقامہ کے معاملے کو جواز بنا کر انہیں سزا دی گئی وہ بھی تاحیات نااہلی کی سزا ، اقامہ کے بعد نواز شریف کے خلاف مقدمات کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور پھر ہر مقدمے میں انہیں سزا ہو تی چلی گئی ، ایک لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ مقتدر حلقے یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ ہر صورت نواز شریف اور مسلم لیگ نون کو پنجر ے میں بند کر نا ہے اور من پسند جماعت کو اقتدار میں لانا ہے، طاقت ور حلقوں کی خواہش اور کو ششوں سے ایسا ہی ہوا ، نوازشریف ان کے خاندان کے افراد اور ان کی جماعت مسلم لیگ نون کو کو نے کھدرے میں دھکیل دیا گیا ، تحریک انصاف اقتدر میں آئی اور سربراہ تحریک انصاف کے خان وزیر اعظم بن گئے قانون کے وہ ادارے اور عدلیہ جو چندسال قبل نوازشریف کو ہر مقدمے میں سزا پر سزا دیتے رہے ، قانون کے وہی ادارے اور عدلیہ آج نوازشریف کو انہی مقدمات میں یا تو بری کر رہے ہیں یا مقد مات واپس لے رہے ہیں ، چند سال قبل جب نواز شریف اور مسلم لیگ نون پر قانون کے وار جاری تھے اس وقت زبان زدعام یہ کہا جا رہا تھا کہ جناب خان کو اقتدار سے نوازنے کیلئے قانون کے گول چکر میں نواز شریف کو الجھا کر جناب خان کیلئے رستہ ’’سیدھا ‘‘ کیا جارہا ہے ، سیاست سے جڑ ے بہت سے ’’ من چلے ‘‘ تو یہا ں تک کہتے رہے کہ مقتدر حلقے اپنے لاڈلے کو اقتدار میں لا نے کیلئے نوازشریف کو کنارے لگارہے ہیں ، اریب قریب پانچ چھ سال بعد وہی کچھ قوم کو دیکھنے کو مل رہا ہے ، جس طر ح سے جناب خان کیلئے رستہ صاف کر نے کیلئے نواز شریف اور مسلم لیگ نون پر عرصہ حیات تنگ کی گئی اور نواز شریف کو نااہل کر کے رستے سے ہٹایا گیا، اب صورتحال جزیات کے حوالے سے وہی کی وہی ہے بس چہرے ادھر سے اُدھر ہو چکے ، کل کلا ں نواز شریف اور مسلم لیگ نون قانون کے نشانے پر تھے آج جناب خان پس زنداں ہیں اور تحریک انصا ف کو قانو ن کی ’’سخت کوشی ‘‘ کا سامنا ہے ، ذرا اس سے آگے چلتے ہیں کہ قانون کے گول چکر طرز کے اقدامات فیصلوں اور چند طاقت ور افراد کی خواہشات نے پاکستان کو کیا دیا ، اس سارے کھیل میں پاکستان نے کیا کھو یا کیا پایا ، ، مسلم لیگ نون کے دور میں ڈالر ایک سو چار روپے کا تھا اس پر اس وقت کے وزیر خزانہ کو معاشی اور عوامی حلقے سخت سست کہتے رہے ، لگے پانچ سالو ں میں ڈالر خیر سے تین سو کے اردگرد منڈلا رہا ہے ، لگے پانچ سالو ں میں کاروبار اور کاروباری طبقہ بالکل بیٹھ زمیں بوس ہوگیا ، سیدھے سبھا ئو یو ں سمجھ لیجئے کہ کاروبار بس نام کا رہ گیا ، ہر کاروباری طبقہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ملک کی معاشی حالات کا رونا رو رہا ہے ، ملک کی ابتر معاشی حالت کی وجہ سے کاروباری طبقہ گویا بس سانس لے رہا ہے ، تجارت کا حال بھی بد تر ہے یعنی تجارت بس نام کی حد تک رہی گئی ہے ، حکومت کی سطح پر غلط پالیسیوں اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک کی ترقی کا پہیہ ایسا جام ہوا کہ چلنے کا نام نہیں لے رہا ، بیرونی قرضوں کا حجم ان پانچ چھ سالوں میں خوف ناک حد تک بڑھا لیکن ملکی سطح پر کو ئی ایسا بڑا منصوبہ شروع نہ ہوا جس سے ملک اور قوم کا بھلا ہوتا ، انہی متذکرہ سالوں میں بے روز گاری کے خاتمہ کیلئے سرکار کی سطح پر ٹھو س اقدامات دیکھنے کی حد تک نہیں ملے جس کی وجہ سے بے روز گاری کی وبا میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا ، اس سارے رام کہا نی کا مدعا کیا ہے ، یہ کہ سیاست کے بازار میں با اثر حلقے اپنی پسند و ناپسند کا سلسلہ بند کر یں ، کل اگر جناب خان کو لاڈلا بنا کر اقتدار میں لا یا گیا تو وہ بھی صریحاً غلط تھا آج اگر نوازشریف یا کسی اور کو لا ڈلا بنا کر لا نے کی کوشش کسی جگہ سے ہو رہی ہے یہ بھی غلط ہے ، سیاسی عدم استحکام اور ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل کیلئے ضروری ہے کہ خالصتاً عوام کی رائے کا صدق دل سے احترام کیا جا ئے ، عوام کو موقع دیا جا ئے کہ وہ جس سیاسی جماعت کو اقتدار سونپنا چاہتے ہیں اپنے ووٹ کی طاقت سے اسے اقتدار سونپ دیں ، اقتدار کی حصول کی رسہ کشی اور بادشاہ گر وں کی ’’چالوں ‘‘ سے ملک اور عوام کا بہت نقصان ہوچکا ، آج عوام کو انہی وجوہات کی بنا پر دو وقت کی روٹی کے لا لے پڑے ہو ئے ہیں ، غربت کی شر ح میں خوف ناک اضافہ ہو چکا ہے ، بے روز گاری اور گرانی عوام کیلئے باقاعدہ عذاب بن چکی ہیں ، ضروری ہے کہ ملک اور قوم کو مزید امتحان میں ڈالنے سے گریز کیا جا ئے اور عوام کے درد سر بننے والے مسائل کے حل کیلئے ان سیاست دانوں کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا جا ئے جنہیں عوام اپنا مسیحا تصور کر تے ہیں ،بہر طور عوام کے حق حکمرانی کا احترام کیا جائے اور عوام کو اپنے نمائندے منتخب کر نے کی پوری آزادی فراہم کی جائے کہ وہ جس کے سر پر چاہیں اقتدار کی پگ رکھیں، اس صورت اگر کل کلاں حکمراں جماعت عوام کے ارمانوں کا خوں کر تی ہے پھر کم از کم عوام کو کسی اور سے گلہ تو نہ ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button