دُکھ،دریا تے میں

ساجدہ صدیق
ہم لوگ بھی بہت عجیب ہیں۔ہمارا پہلا المیہ یہ کہ ہم اپنی سوچوں،اپنے خیالات،اپنی فکر کو مثبت کی جگہ منفی بہت استعمال کرتے ہیں بلکہ استعمال کرنے کے ماہر ہیں۔ہم نے سوچوں اور فکروں میں فرق کرنا چھوڑ دیا ہے۔ہم افراط و تفریط کا شکا رہیں(ملک تو افراطِ زر کا شکار ہے ہی)جیسے جیسے ہم نے مادی اشیاء میں فرق کرنا شروع دیا ہے۔ویسے ویسے ہی ہم نے انسانوں میں فرق کرنا شروع کر دیا ہے۔ہم نے انسانوں کو طبقات میں تقسیم کر دیا ہے۔ہم اپنے ہم جنس کو محبت،خلوص،ہمدردی سے نہیں پرکھتے بلکہ دولت اور مرتبے سے پرکھتے ہیں۔معیار پر پرکھتے ہیں۔ ہم نے ’’سٹیٹس کو‘‘ہونا شروع کر دیا ہے۔اللہ نے انسانوں کو محض عبادت کیلئے پیدا نہیں کیا۔بلکہ انسانوں سے محبت اور ہمدردی کا درس بھی دیا ہے۔اللہ نے اپنی مخلوق سے محبت پیار اور نرم رویے کی بھی تلقین ہے۔بقول خواجہ میر درد
دردِ کے واسطے پیدا انساں کو
ورنہ اطاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کّروبیاں
اپنے عجیب انسان ہیں۔ہم نے اپنے ہم نفسوں کا خیال چھوڑ دیا ہے۔حکومتیں جب اپنی عوام سے ہاتھ کھینچ لیتی ہیں تو ملک اور قوم دونوں تباہ ہو جاتے ہیں۔افراتفری کا عالم شروع ہوجاتا ہے۔ معاشرے زوال کا شکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ مذہب میں بیگانگی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ تہذیبوں میں ٹکرائو آجاتا ہے۔معاشرے کے خدوخال مسخ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔’’ڈیوائیڈ اینڈ رول‘‘ کا عمل جنم لے لیتا ہے۔ سب سے بڑی بات فرد اپنے نصب العین سے ہٹ جاتا ہے اور قومیں اپنی منزل کے راستے کا تعین نہیں کر سکتیں۔جب ایسی صورت حال پیدا ہو جائے تو پھر ادب پر بھی ہر طرح کے اثرات جنم لیتے ہیں جیسے اردو کے بہترین 100 ناولز
آگ کا دریا (قراۃ العین حیدر)۔ خس و خاشاک زمانے (مستنصر حسین تارڑ)۔ راکھ (مستنصر حسین تارڑ)۔ بہاؤ (مستنصر حسین تارڑ)۔ کئی چاند تھے سرِ آسماں (شمس الرحمٰن فاروقی)۔ نمبردار کا نیلا (سید محمد اشرف)۔ چک پیراں کا جسّا (بلونت سنگھ)۔ اداس نسلیں (عبداللہ حسین)۔ مراۃالعروس (ڈپٹی نذیر احمد)۔ امراؤ جان ادا (مرزا ہادی رسوا)۔ بازارِ حسن (منشی پریم چند)۔ گئودان (منشی پریم چند)۔ بیوہ (منشی پریم چند)۔ میدانِ عمل (منشی پریم چند)۔ فسانہء آزاد (رتن ناتھ سرشار)۔ لندن کی ایک رات (سجاد ظہیر)۔ ایک چادر میلی سی (راجندر سنگھ بیدی)۔ لیلیٰ کے خطوط (قاضی عبدالغفار)۔ ایسی بلندی ایسی پستی (عزیز احمد)۔ آگ (عزیز احمد)۔ دادر پل کے بچے (کرشن چندر)۔ اور خدا دیکھتا رہا (جمنا داس اختر)۔ ٹیڑھی لکیر (عصمت چغتائی)۔ خدا کی بستی (شوکت صدیقی)۔ دشتِ سوس (جمیلہ ہاشمی)۔ غلام باغ (مرزا اطہر بیگ)۔ راجہ گدھ (بانو قدسیہ)۔ حسن کی صورتحال (مرزا اطہر بیگ)۔ بستی (انتظار حسین)۔ قلعہ فراموشی (فہمیدہ ریاض)۔ آنگن (خدیجہ مستور)۔ دھنی بخش کے بیٹے (حسن منظر)۔ موت کی کتاب (خالد جاوید)۔ چاکیواڑہ میں وصال (محمد خالد اختر)۔ نولکھی کوٹھی (علی اکبر ناطق)۔ چار درویش اور ایک کچھوا (سیّد کاشف رضا)۔ جاگے ہیں خواب میں (اختر رضا سلیمی)۔ لے سانس بھی آہستہ (مشرف عالم ذوقی)۔ پانی مر رہا ہے (آمنہ مفتی)۔ دکھیارے (انیس اشفاق)۔ بھاگ بھری (صفدر زیدی)۔ آگے سمندر ہے (انتظار حسین)۔ انواسی (محمد حفیظ خان)۔ پنجر (امرتا پریتم)۔ زندیق (رحمٰن عباس)۔ راجپوت (عبیداللہ بیگ)۔ کاغذی گھاٹ (خالدہ حسین)۔ مٹی آدم کھاتی ہے (محمد حمید شاہد)۔ قبض زماں (شمس الرحمٰن فاروقی)۔ تلاشِ بہاراں (جمیلہ ہاشمی)۔ دائرہ (عاصم بٹ)۔ سائبر اسپیس کا منشی (مرزا اطہر بیگ)۔ بھید (عاصم بٹ)۔ جندر (اختر رضا سلیمی)۔ نیلی بار (طاہرہ اقبال)۔ سیاہ سونا (نیلوفر اقبال)۔ حیدر گوٹھ کا بخشن (حفیظ خان)۔ ہری یوپیا (حنا جمشید)۔ جسے رات لے اڑی ہوا (اقبال دیوان)۔ ٹرین ٹو لاہور (خوشونت سنگھ)۔ دلی (خوشونت سنگھ)۔ منطق الطیر جدید (شیخ فرید الدین عطار)۔ آخرِ شب کے ہمسفر (قراۃ العین حیدر) ۔ باگھ (عبداللہ حسین)۔ بے وطن (اشرف شاد)۔ کاروانِ وجود (نثار عزیز بٹ)۔ ایوانِ غزل (جیلانی بانو)۔ آبلہ پا (رضیہ فصیح احمد)۔ وقت کی باگھ (خالد فتح محمد)۔ پیوستہ رہ شجر سے (شبنم ایشی گوزیل)۔ گنگا جمنی میدان (اختر حمید خان)۔ دیوار کے پیچھے (انیس ناگی)۔ پریشر ککر (صدیق سالک)۔ سیاہ آئینے (فاروق خالد)۔ خوشیوں کا باغ (انور سجاد)۔ نے چراغ نے گلے (نثار عزیز بٹ)۔ جنت کی تلاش (رحیم گل)۔ چلتا مسافر (الطاف فاطمہ)۔ نادار لوگ (عبداللہ حسین)۔ میرا گاؤں (غلام ثقلین)۔ میں اور وہ (انیس ناگی)۔ اللہ میگھ دے (طارق محمود)۔ ایمرجنسی (صدیق سالک)۔ اپنی دعاؤں کے اسیر (فاروق خالد)۔ دستک نہ دو (الطاف فاطمہ)۔ جانگلوس (شوکت صدیقی)۔ سانجھ بھئی چودیس (سلمہ یاسمین)۔ پار پرے (جوگندر پال)۔ زینو (وحید احمد)۔ پوکے مان کی دنیا (مشرف عالم ذوقی)۔ جنم کنڈلی (فہیم اعظمی)۔ نادید (جوگندر پال)۔ پرائی دھرتی اپنے لوگ (جتیندر بلو)۔ مہانگر (جتیندر بلو)۔ وشواش گھات (جتیندر بلو)۔ درندے (ہرچرن چاولہ)۔ بھٹکے ہوئے لوگ (ہرچرن چاولہ)۔ گرتی دیواریں (اوپندر ناتھ اشک)۔ ڈھاڈری (وسیم شاہد)۔ پیرس میں ایک رات (آغا افتخار حسین)۔ کٹھ پتلی (دیویندر ستھیارتھی)۔ تیری قسم ستلج (دیویندر ستھیارتھی)۔ چیخ (انور سین رائے)۔ آدھا گاؤں (راہی معصوم رضا)۔ لہو کے پھول (حیات اللہ انصاری)۔ شب گزیدہ (قاضی عبدالستار)۔ کڑوے کریلے (ثروت خان)۔ دھند میں اگا پیڑ (آشا پربھات)۔ دل بھٹکے گا (احمد بشیر)۔ چوٹ (دھت بھارتی)۔ مھاماری (شموئل احمد)۔ ندی (شموئل احمد)۔ صفر سے ایک تک (مرزا اطہر بیگ)۔ کراچی والے (محمد امین الدین)۔ خواب رو (جوگیندر پال)۔ جاگنگ پارک (نکہت حسن)۔ قریبِ مرگ میں محبت (مستنصر حسین تارڑ)۔ اندھیرا ہونے سے کچھ پہلے (نجمہ سہیل)۔ کہر (محمد الیاس)۔ دھنی بخش کے بیٹے (حسن منظر)۔ آشوب گاہ (محمد حامد سراج)۔ مٹی کی سانجھ (طاہرہ اقبال)۔ کنجری کا پل (یونس جاوید)۔ قرطبہ (مصطفیٰ کریم)۔ خواب سراب (انیس اشفاق)۔ موت کی کتاب (خالد جاوید) ۔ آخری دعوت (خالد جاوید)۔ دو گز زمین (عبدالصمد)۔ سسٹم (عبدالصمد)۔ بلہا کیہہ جاناں میں کون ذکیہ مشہدی)۔ میرے ہونے میں کیا برائی ہے (رینو بہل)۔
ترکی کے خلیفہ سلطان مراد کی عادت تھی کہ وہ بھیس بدل کر عوام کی خبر گیری کرتا تھا۔ اس نے ایک رات اپنے سکیورٹی انچارج کو کہا کہ، چلو کچھ وقت لوگوںمیں گزارتے ہیں۔ شہر کے ایک کنارے پر پہنچے تو دیکھا ایک آدمی گرا پڑا ہے۔ بادشاہ نے اسے بلاکر دیکھا تو مردہ انسان تھا۔ لوگ اس کے پاس سے گزر کرجارہے تھے۔ بادشاہ نے لوگوں کو آواز دی، ادھر آئو بھائی، لوگ جمع ہوگئے اور بادشاہ کو پہچان نہ سکے۔ پوچھا: کیا بات ہے؟ بادشاہ نے کہا آدمی مرا پڑا ہے، اس کو کسی نے کیوں نہیں اٹھایا، کون ہے یہ اور اس کے گھر والے کہاں ہیں؟
لوگوں نے کہا: یہ بہت برا اور گنہگار انسان ہے، تو سلطان مراد نے کہا: کیا یہ امت محمدیہ میں سے نہیں ہے۔ چلو اس کو اٹھائیں اور اس کے گھر چلیں۔
لوگوں نے میت گھر پہنچادی۔ اس کی بیوی نے خاوند کی لاش دیکھی تو رونے لگی۔ لوگ چلے گئے، بادشاہ اور اس کا سکیورٹی انچارج وہیں عورت کا رونا سنتے رہے۔
وہ کہہ رہی تھی، میں گواہی دیتی ہوں، بیشک تو اللہ کا ولی ہے، اور نیک لوگوں میں سے ہے، سلطان مراد بڑا متعجب ہوا، یہ کیسے ہوسکتا ہے، لوگ تو اس کے بارے میں یہ باتیںکررہے تھے اور اس کی میت کو ہاتھ لگانے کو تیار نہ تھے۔ اس کی بیوی نے کہا: مجھے بھی لوگوں سے یہی توقع تھی، اصل حقیقت یہ ہے کہ میرا خاوند ہر روز شراب خانے جاتا، جتنی ہوسکے شراب خریدتا اور گھر لاکر گڑھے میں بہادیتا، اور کہتا کہ چلو کچھ تو گناہوں کا بوجھ مسلمانوں سے ہلکا ہو۔
اسی طرح رات کو ایک بری عورت کے پاس جاتا اور اس کو ایک رات کی اجرت دے دیتا اور اس کو کہتا کہ اپنا دروازہ بند کرلے، کوئی تیرے پاس نہ آئے۔ گھر آکر کہتا الحمد للہ آج اس عورت کا اور نوجوان مسلمانوں کے گناہوں کا میں نے کچھ بوجھ ہلکا کردیاہے۔ لوگ اس کو ان جگہوں پر آتا جاتا دیکھتے تھے، میں اسے کہتی تھی کہ یاد رکھ! جس دن تو مرگیا لوگوں نے تجھے غسل دینا ہے نہ تیری نماز پڑھنی ہے اور نہ تجھے دفنانا ہے۔ وہ مسکرادیتا اورمجھ سے کہتا کہ گبھرا مت، تو دیکھے گی کہ میرا جنازہ وقت کا بادشاہ، علما اور اولیا پڑھیں گے۔ یہ سن کر بادشاہ روپڑا اور کہنے لگا: میں سلطان مراد ہوں، کل ہم اس کو غسل دیں گے، ہم اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائیں گے اور اس کی تدفین بھی ہم کروائیں گے۔ چنانچہ اس کا جنازہ بادشاہ، علما، اولیا اور کثیر عوام نے پڑھا۔ آج ہم بظاہر کچھ دیکھ کر یا محض دوسروں سے سن کر اہم فیصلے کربیٹھتے ہیں۔ اگر ہم دوسروں کے دلوں کے بھید جان جائیں تو ہماری زبانیں گونگی ہوجائیں۔