خبط، عظمت اور تسلط کی نفسیات کی اصل وارث قومیں

خیر زمان راشد
یہودی ابتدا سے ہی اپنے علاوہ سب کی غلامی اطاعت اور باجگزاری کے خواب دیکھتے رہے ہیں۔ یہ بادشاہت ان کا مزمن عارضہ ہے۔ اپنے ماضی کے ساتھ اس معاشقے کو انہوں نے اپنی مذہبیت، نسلی تفاخر اور دنیا کی اقوام بارے ایک غیر ذمہ دارانہ سوچ سے بہت نقصان پہنچایا اور خود بھی دنیا میں ایک اقلیت اور خطرہ بن کر رہے اور دوسری اقوام اور مذاہب کو بھی یہ وائرس منتقل کیا۔یہی وجہ تھی کہ کہیں ان سے نفرت نسلیت کے تفاخر کی وجہ سے کی گئی اور کہیں دوسری اقوام میں اپنی ذہانت، دولت، سیاست کاری، علمی سائنسی اور مشاورت کی خدمات کی وجہ سے وہ رد عمل کا شکار ہوئے۔کبھی کبھی اس کا باعث ان کی سازشیں بھی ہیں۔
بے رحمانہ مذہبی جذبات کے ساتھ انھوں نے آپس میں لڑائیاں کیں، دوسری قوموں پر حملہ آور ہوئے۔ غیر اسرائیلیوں کے قتل اور ان کی اطاعت کے عقیدے کو اپنے نسلی اثر ورسوخ کیلئے استعمال کیا۔ اسی کیلئے دنیا میں سازشیں کیں، حتی کہ ساہوکاری میں مہارت اور پھر اس شکنجے میں سماج کو جکڑنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ یہ سب کچھ خدا اور پیغمبر کی منشا کے پرچم تلے ہوتا رہا پھر یوں کہ ہٹلر کی خدائی میں پھنس گئے۔ جہاں سے عیسائیوں اور مسلمانوں نے ریسکیو کیا۔ لیکن انہی اقوام کے خلاف نفرت سے آج بھی ان کا مذہبی لٹریچر بھرا پڑا ہے۔ موجودہ اسرائیل اسی مذہبی رجعت کی وارث ریاست ہے۔
بد قسمتی سے ہو بہو یہی رویہ یہودیت کے بعد عیسائیوں اور مسلمانوں نے بھی اپنایا۔ مسلمان عروج کے راستے پر نکلے تو کھوپڑیاں اتارنے کے فن میں وحشت اور مہارت دکھائی اور اپنے پیغمبر کے خانوادے کے سروں کی بھی گنتی کی اور ہزاروں میل بریدہ سروں کا تماشا کرتے پھرے۔
عیسائیوں نے پورا اندلس خالی کردیا اور کھوپڑیوں کے چرچ بنائے۔ جو آج بھی ان کی وحشت کے گواہ ہیں۔دیگر مذاہب میں مودی ازم آج ہندوستان میں اپنے من پسند طریقے سے قتل عام کی بساط بچھا رہا ہے۔ برصغیر میں شدت پسندی کے موجودہ لہر کا علم اب دنیا کی تہائی بادی کے لیڈر اور اس کی شدت پسند جماعت کے پاس ہے۔
مشرق وسطی میں اس نظریئے کے بیج ہمیں یہودی نفسیات میں ملتے ہیں۔ جہاں سے وہ دیگر مشرقی مذاہب میں شامل ہو کر زیادہ بے رحم اور دنیا کیلئے خطرے کے نظریات میں ڈھل رہا ہے۔ اسرائیل اور اس کی سرپرست کے ساتھ عرب حکمرانوں کا منفی رویہ بھی مذہبی شدتوں پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔ اسی نفسیات کا وحشت ناک منظر خطے میں جنگی صورتحال کی صورت میں آج دیکھا جارہا ہے۔ اسرائیل حماس جنگ دراصل دو مذہبی فکروں کی جنگ ہے۔ جن کی جڑیں براہمی مذاہب میں ہیں۔ یہ ماضی کی شدید نفرت ہے۔ جسے عقیدہ بنا کر انسانی نفسیات کو ایک مرض بنا دیا ہے۔
یہ یہودی خبط کبھی بھی بانجھ نہیں ہوا۔ اس نظریئے سے عیسائیت اور پھر اسلام نے بھرپور قوت حاصل کی۔ البتہ برصغیر میں یہ تصور آرین نے دیا۔ فرق یہ ہے کہ یہاں دھرتی کی تقدیس کی وجہ سے یہ نظریہ عالمی طور پر خطرہ نہیں رہا۔ جس کا اقوام عالم کو نقصان نہیں ہوا۔ لیکن برصغیر میں اس آرین اور برہمن سوچ نے اقلیتوں کیلئے مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔ جو اس وقت مودی اور ان کی بنیاد پرست پارٹی کے بینر تلے اقلیتوں کے خلاف اکثریت کو ہلا شیری دینے، سیاسی اور ریاستی تحفظ کی صورت میں جاری ہے۔
گزشتہ دنوں نیتن یاہو نے مذہبی بالادستی اور غیر یہودیوں کے نیست ونابود کرنے کے اعلان کے ساتھ اس بنیاد پرستانہ افکار کی توثیق کردی۔ اسی فکر کا شاخسانہ ہے کہ آج اسرائیل کی حمایت میں غزہ کو نیست و نابود کرنے کی مہمات عروج پر ہیں۔اور اس قتل عام جواز اور اس کے حق میں کانگرس میں یہودی نواز پارلیمنٹیرینز کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔
اسی سے ملتا جلتا رویہ مسلمانوں کا ہے وہ بھی لاکھوں کے اجتماعات میں یہودیت کے خاتمے اسرائیل کے نیست ونابود ہونے کی دعائیں اور اپنے ہاتھوں یہ انجام دینے کا عزم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سائبر دنیا ڈیوائسز کے ذریعے یہ سب لمحہ بہ لمحہ رپورٹ کر رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم نے ایک دوسرے کو ختم ہی کرنا ہے تو پھر انسانیت کہاں ہے؟ امن اور عالمی برادری کس کا نام ہے؟ اور کیا خاتمے کی ان جنگوں کے من پسند نتائج ممکن ہیں؟۔کیا یہودیت، اسلامیت فلسطین یا اسرائیل کا خاتمہ ہی خطے میں امن اور بقا کی ضمانت ہے؟ کیا آج کے دور میں کسی قوم کو نیست و نابود کر دینا اتنا ہی آسان ہے؟ ایسا نہیں ہے، یقیناً نہیں تو کوئی بھلا آدمی اور مذہبی تقویم اور ان کی سرپرست ریاستوں کا کوئی وارث چیخ کر اعلان کیوں نہیں کرتا کہ انسانیت کا اصول بقائے باہمی ہے۔ ایک دوسرے کا خاتمہ ہر گز نہیں!
کروڑوں مسلمان اور عیسائی اور لاکھوں یہودی روزانہ کی مناجات میں مقدس جنگوں کا بھاشن دیتے ہیںاور دنیا کو خطرے سے دوچار کر رہے ہیں۔پاگل پن کی حدوں کو چھوتی سہ مذہبی نفسیات سے قطع تعلق کر کے ہی ہم دنیا میں امن قائم کر سکتے ہیں۔ ورنہ اس نفسیات کو عالمی سامراج کارپوریٹڈ گلوبلائزیشن کیلئے بے رحمی سے استعمال کرتا رہے گا۔ اس وقت محاربین کے لہجے بھی یہی بتاتے ہیں کہ ہمیشہ قوت ہے حق کا نام ہے۔ آئندہ نسلوں کیلئے خوفناک سوال یہ کہ کیا طاقت کے ہی حق ہونے کے نظریہ کو دنیا اور مذاہب عملی طور پر تسلیم کر چکے ہیں؟
اب ایک ہی صورت ہے جینے کی کہ آپ دوسروں کی مرضی سے جیئں۔ عالمی سماج، اور انسانیت کے ریاستی اور مذہبی دعوؤں کا تماشا گزشتہ کئی صدیوں سے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ جاری ہے۔لگتا ہے اب طاقت ہی خدا اور پیغمبر ہے۔ لیکن انسان کی خدائی کے سن مظاہر کے باوجود انسان کم ہمت نہیں اگرچہ یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے۔ تاریخ میں کسی بھی قوم یا فرد کو بچانے کیلئے دنیا نے اپنے شعور کو مظاہرہ نہیں کیا۔ ہاں قتل عام کے بعد ان کے انتقام اور بدلے کیلئے سیاست ضرور کی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کیسی تہذیب اور کیسا اشرف البشر، کہ اس کی نظر میں ہمیشہ مٹ جانے مر جانے اور خاک ہوجانے والے اور کمزور غلط ہوتے ہیں۔
بہرحال ہر جنگ کے پیچھے کچھ مذہبی ترویج ریاستی خبط اور معاشی مفادات ہوتے ہیں۔ دنیا کے ہر مذہب میں عالمی، ریاستی قوانین اور روایات میں امن اور بقائے باہمی اور انسانی آبادیوں کا احترام موجود ہے۔ لیکن خود مذاہب خود ریاستیں اس کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ وجہ وہی تسلط کی وحشت،خبطِ مذہبی، مخصوص مقاصد اور معاشی جنگیں ہیں۔ تاکہ وسائل اور اسلحہ سازی کی صنعت کمزور نہ پڑے۔ اور مذہبی اور ریاستی سیادت کا پروٹوکول اور پروگرام جاری رہے۔مرتے عام آدمی ہیں اور فیصلے کرتے ہیں خاص آدمی۔غزہ بھی ریاستوں کے درمیان ایک آنسان سا کھیل ہے۔ ایک بے بس کیمونٹی ہے۔ جسے عالمی بدمعاشیہ اور ان کے مقامی حواریوں نے اپنی وحشتوں کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ اہل غزہ اتنے ہی بے بس ہیں جیسے کبھی یہودی جرمنی میں ہٹلر کے سامنے تھے۔ آج ہٹلر کا مشن اسرائیل کے پاس ہے۔ کل کا مظلوم آج کا ظالم ہے۔ دنیا کے امن پسند کل بھی بولتے تھے آج بھی چپ نہیں ہوئے۔ اس جنگ کے خلاف سب سے توانا آواز تو خود یہودی کیمونٹی سے بھی اٹھ رہی ہے۔ اور مغرب و مشرق سے بھی انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کے خلاف رد عمل آرہا ہے۔ اب یہ دنیا میں ایک کمزور اقلیت توانا آواز کے ساتھ موجود ہے۔ اور متعصب غاصب اور شدت پسند اکثریت مذاہب اور ریاست کے دیوتاؤں کی صورت میں دوسری طرف ہیں اور بدنصیبی سے یہ اب نئے معرکوں کیلئے سلوگن تشکیل دے رہی ہیں۔ امن اور جنگ سے بچنے کے امکان اور عالمی اداروں اور قانون کے باوجود پر امید رہنے والے دانشور آج کچھ مایوس ہیں۔ کیونکہ اس وقت عالمی بساط سیاست پر ہو بہو پاکستانی سیاست کی سی غیر سنجیدگی اور غیر یقینیت مسلط ہے۔ اس لئے کہ یہ صرف لیڈروں اور اسٹیبلشمنٹ اور سرمایہ داروں کی انا اور مفاد کی جنگ ہےجو پہلے بھی متحرک تھے جو آج بھی محفوظ اور متحرک ہیں۔ یہ رویے قوموں اور افراد کے نفسیاتی امراض ہوتے ہیں۔ورنہ انہیں قوم اور انسانیت کا وسیع تر مفاد ان ظالمانہ رویوں سے باز رکھتا۔ دنیا پہ کمزور نفسیات کے عیاش لوگ حکمران ہیں۔ جو صرف ڈیٹا اور حاصلات پر نظر رکھتے ہیں۔ان کے سینوں میں کرنسی کا کرارا پن اور تعصبات کی وہ آگ ہے۔ جسے وہ خدا کی تپائی ہوئی بھٹی کہتے ہیں۔ جس میں ایندھن کے طور پر ہمیشہ سے انسان پھینکے جاتے رہے ہیں۔