بائیسکل اور احساسِ کمتری!

ہم نے برسوں بعد سائیکل پر گائوں جانے کا ارادہ باندھ لیا تھا۔ عمر کے تقاضے کچھ اور تھے ، مگر جب ہمیں معلوم ہوا کہ اب سڑک نئی بنی ہے اور بہت کشادہ ہے، تو حوصلہ کر لیا۔ واضح رہے کہ ہمیں اپنے آبائی شہر گوجرہ سے بہاول پور ’ہجرت‘ کئے عشروں گزر چکے ہیں۔ اب اپنے آبائی شہر سے سائیکل پر سفر شروع کیا ہی تھا کہ اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا، کیونکہ سائیکل کی رفتار تو واقعی بہت کم تھی، یہ تو پیدل چلنے والوں سے ذرا ہی تیز تھا، ہمارے پاس سے موٹر سائیکل شاں شاں کر کے گزر رہے تھے۔ دوسری پریشانی یہ بھی تھی کہ ہماری ٹانگیں شل ہونے لگی تھیں، جس کے فطری اثرات دماغ پر مرتب ہو رہے تھے۔ سفر کرتے ہوئے کافی دیر کے بعد دو لوگ اور بھی سائیکل پر جاتے ہوئے دکھائی دیئے، وہ اپنے اور اپنی سائیکل کے وجود کو کچھوے کی رفتار سے کھسیٹتے جا رہے تھے کہ ہم نے اُنہیں آسانی سے کراس کر لیا۔ ہمارا سفر آمدورفت میں قریباً بیس کلومیٹر پر محیط تھا۔ اگرچہ اب ہم عشروں بعد ہی یہاں سائیکل پر جا رہے تھے تاہم یہ مسافت اور سائیکل سواری ہمارے لئے نئی اور اجنبی نہیں تھی۔ گزشتہ صدی کی آخری سے پہلی دہائیوں میں کم از کم سات برس ہم یہ سفر روزانہ کرتے تھے۔
سب سے پہلی تبدیلی تو یہی تھی کہ دیہات کی طرف جانے والی سڑکیں سالہا سال ٹوٹی رہتی ہیں، مسافر کربناک اور تکلیف دہ حالات سے تنگ آ چکے ہوتے ہیں کہ دسیوں برس بعد سڑک کی قسمت جاگتی ہے، خوشی اس بات پر ہوئی کہ سڑک کی چوڑائی قریباً دگنی کر دی گئی ہے۔ دوسری تبدیلی جو کئی برس قبل ہی آغاز پذیرہو چکی تھی ، وہ ٹانگے کا خاتمہ اور چنگ چی (جسے عرفِ عام میں چاندگاڑی بھی کہا جاتا ہے)کی آمد تھی۔ ہمارے زمانہ طالب علمی میں یہاں صبح سکول کالج کے وقت میں دسیوں ٹانگے مختلف دیہات سے طالبات کو بٹھا کر سکولوں یا کالج وغیرہ کے لئے جاتے تھے، جبکہ سیکڑوں طلبہ سائیکلوں پر سکول جاتے ۔ چھوٹی سی سڑک پر بہت رونق لگی ہوتی تھی، گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سے پیدا ہونے والی آواز سماں باندھ دیتی تھی۔ اب چاند گاڑیوں کا چلن پیدا ہو چکا ہے۔ گدھے کی جگہ بھی موٹر سائیکل نے سنبھال لی ہے، یعنی گدھا ریڑھی بھی دو چار ہی دکھائی دیں۔
ہم نے خاص طور پر سائیکلوں پر توجہ مرکوز رکھی۔ شاید تیس موٹر سائیکلوں کے مقابلہ میں ایک سائیکل سڑک پر تھی۔ ہمیں کوئی عام آدمی سائیکل سوار دکھائی نہ دیا، کُل درجن بھر سائیکل سوار نظر آئے جن میں تین چار دیہاتی طالب علم تھے، باقی تمام افراد یا ہماری طرح بوڑھے تھے یا پھر مزدور طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ہمارے زمانہ طالب علمی میں پورے سفر میں موٹر سائیکل انگلیوں پر گِنے جاتے تھے، کوئی کار تو دس کلومیٹر میں شاید ایک آدھ ہی گزرتی تھی۔ مگر اب دیہات کی طرف جانے والی سڑک پر گزرتی کاروں کی بھی کمی نہ تھی۔ سڑک پر البتہ کچھ گھوڑا گاڑیاں تھیں جن پر نہر (جو کہ شہر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے) کے کنارے لگے دستی نلکوں سے پلاسٹک کے ڈبوں میں پانی بھر کر لاتے ہیں اور شہر میں فروخت کرتے ہیں۔
یہ سوچ ہمارے دامن گیر رہی کہ آیا ہمارے پاس وقت کی بہت کمی ہے جو کہ ہم تیز رفتاری کے خبط میں سائیکل کی بجائے موٹر سائیکل کو ترجیح دیتے ہیں؟ اب تو شہر وں میں بھی چند سو فٹ کا سفر بھی پیدل کرنے کے لئے نوجوان تیار نہیں ہوتے، کچھ یہی حال دیہاتیوں کا ہے۔ سائیکل کی بجائے موٹر سائیکل پر سفر کرکے جو وقت بچایا جاتا ہے، اُس وقت کا مصرف کیا ہے؟ممکن ہے طالب علم اپنی پڑھائی کے لئے، دکان دار اپنے کاروبار کے لئے، زمیندار اپنی زمینوں کی نگرانی کے لئے وقت بچا رہا ہو۔ دعویٰ بھی یقیناً ہر کوئی یہی کرے گا ، مگر وقت بچا کر اُس کا کوئی بہتر مصرف تلاش نہیں کیا جاتا بلکہ اُسے ضائع کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے، یہ عمل اب کسی حساب کا مسئلہ نہیں، بلکہ موبائل ہے نا ،ہر کسی کے پاس، اِس آلہ مصروفیت کے ہوتے وقت ضائع کرنے کے لئے کسی اور چیز کی کیا ضرورت ہے؟
موٹر سائیکل کا وجود جہاں وقت بچانے کا جواز فراہم کرتا ہے، وہاں اس حقیقت پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ جو صحت فطرت کے مطابق زندگی گزارنے سے بہتر رہتی تھی، وہ آرام طلبی کی وجہ سے اپنا وجود کھو بیٹھی ہے۔ اب گائوں میں بھی پیدل چلنے کا رجحان دم توڑ رہا ہے، موٹر سائیکل خریدنے کی حیثیت نہ بھی ہو تو نوجوان لڑکے اپنے والدین کو مجبور کردیتے ہیں، پھر اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے، حادثات بڑھتے ہیں، چوری چکاری کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے، اور سب سے بڑھ کر آلودگی کا سبب بنتے ہیں۔ آج کل کم عمر ڈرائیوروں اور موٹر سائیکل سواروں کی لااُبالی حرکتوں کی وجہ سے جو حادثات ہو رہے ہیں، وہ حکومتوں اور خود عوام کے لئے دردِسر بنے ہوئے ہیں۔
آج ہمیں گائوں آتے جاتے جو درجن بھر افراد سائیکل سوار دکھائی دیئے ، ہم نے بہت غور سے اُن کے چہروں کا جائزہ لیا، اُن میں اپنی حیثیت کے مطابق شاید موٹر سائیکل خریدنے کی سکت ہی نہیں تھی، وہ معاشرے کے کمزور طبقہ کے لوگ تھے، اور وہ یقینا ذہنی طور پر اپنی موجودہ حیثیت کو قبول کر چکے تھے، نہ جانے اُن کی اولاد میں کوئی ایسا ہوگا جو دبائو بڑھائے گا اور گھر والوںکو موٹر سائیکل خریدنے پرمجبور کر دے گا۔سائیکل جو کہ ہر کسی کے فائدے کی ہی چیز ہے، جسے اب غریب کی سواری ثابت کرکے کم تر ظاہر کر دیا گیا ہے، عام آدمی اور اُس کا جواں بیٹا اب سائیکل سواری کو اپنی بے عزتی تصور کرتا ہے۔ جب ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی نقل کرنے اور مثالیں دینے کی عادت ہے تودیکھنا چاہیے کہ وہاں سائیکل چلانے کا چلن عام ہے، ہم لوگ شاید کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہیں کہ جن سے ہم قرضے لیتے ہیں، اُن کے سامنے بھی ٹھاٹ سے ہی رہتے ہیں ۔ تیز رفتار دنیا کے سامنے سائیکل کو قدامت پرستی قرار دیا جاتا ہے یا پسماندہ ذہنیت تصور کیا جاتا ہے، اور یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ دنیا کی رفتار کے ساتھ چلنا چاہیے۔ مگر چھوٹے موٹے سفر میں تو سائیکل استعمال کی جاسکتی ہے، اس میں شرمندہ ہونے کی بجائے اپنی صحت اور بچت کا خیال رکھنا چاہیے، مگر کیا کیا جائے کہ دوسرے کا سُرخ چہرہ دیکھ کر خود کا تھپڑ مار کرچہرہ سرخ کرلینے کا چلن رواج پا چکا ہے۔