آج کے کالمعاصمہ حسن

خوراک کا ضیاع اور ہماری بے حسی کا عالم

عاصمہ حسن

وزارتِ قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ملکی پیداوار کی قریباً 26 فیصد خوراک ضائع ہو جاتی ہے جس کی مالیت 4 ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے ـ ۔ پاکستان کا غریب اور ترقی پذیر ممالک میں شمار ہوتا ہے یہاں اکثریت کو دو وقت کی روٹی ملنا یا پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا، مہنگائی نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ـ عام شہری بنیادی ضروریات سے محروم ہے اور ہرطرف بھوک و افلاس کا راج ہے ـ ہم کھانا ضائع تو کر سکتے ہیں لیکن کسی غریب کے منہ میں نوالہ نہیں ڈال سکتے ـ یہ احساس نہ ہم میں ہے اور نہ ہم اپنی نسلوں کو دے رہے ہیں ۔ ـ
ہمارے پیارے نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کا ضیاع نہیں کرنا چاہیے ‘ حتٰی کہ دسترخوان پر گِرے روٹی کے ٹکڑے کے بارے میں فرما کہ اسے صاف کر کے کھا لینا چاہیے۔ لیکن آج کل کے بچے ایسا کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ـ ان کیلئے یہ معیوب بات ہے کہ کھانے کی چیز چاہے صاف جگہ پر ہی کیوں نہ گر جائے اٹھا کر کھایا جا سکتا ہے ـ اس میں قصور ہمارا بھی تو ہے کہ ہم نے ان کی تربیت ہی اِسی طرز پر کی ہے کہ مت کھاؤ گندہ ہو گیا ہے ـ جب ایسا ہم نے سکھایا ہے تو ان کو کیسے رزق کی اہمیت کا احساس ہو گا ـ ان کو کیسے پتہ چلے گا کہ ایک وقت کی روٹی کیلئے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے،ـ بچے رات کو گھرلوٹتے باپ کا خالی ہاتھ دیکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں ـ بچوں کو بھوکا پیاسا دیکھ کر ایک باپ پر کیا گزرتی ہے اللہ اس کرب سے کسی کو نہ گزارے ـ ۔ ہم ہر سطح پر خوراک کو ضائع کرتے ہیں ـ گھر کے کچن سے شروع کریں تو بہت سارا سامان ہم ایسا خرید لیتے ہیں جو ہم سمجھتے ہیں کہ ضرورت کا ہے لیکن وہ استعمال نہیں ہوتا اور اس کی معیاد پوری ہونے پر پھینک دیا جاتا ہے ـ سبزی ‘ پھل وغیرہ کے ساتھ بھی یہی حال ہوتا ہے جو کوڑے دان میں چلے جاتے ہیںـ اس کے علاوہ کئی گھروں میں مختلف لوازمات تیار کئے جاتے ہیں اور ان کے فریج بھرے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی بچے
باہر سے آرڈر کرتے ہی نظر آتے ہیں ـ اب وہ کھانا جو کچھ دن تو فریج میں پڑا رہتا ہے پھر کوڑے دان میں چلا جاتا ہے لیکن کسی غریب کے حلق سے نہیں اترتا کیونکہ ان کو دیا ہی نہیں جاتا اور ایسا کرتے ہوئے نہ ہی ان کی غربت یا افلاس کا خیال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح دکان دار ‘ سبزی اور پھل فروش بھی خراب یا باسی پھل اور سبزیاں کوڑے میں پھینک دیتے ہیں جس کا ڈھیر ہمیں راستے میں ہر تھوڑے فاصلے پر نظر آتا ہے جس سے نہ صرف گندگی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ تعفن بھی پھیلتا ہے۔ ہوٹل اور ریسٹورانٹ والے شکل، رنگ، سائز اور ذائقہ ٹھیک نہ ہونے کی بناء پر روزانہ کی بنیاد پر بڑی مقدار میں کھانا ضائع کرتے ہیں ـ ۔
جب ہم لوگ گھر سے باہر کہیں کھانا کھانے جاتے ہیں تو اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ کھانا کتنا منگوانا ہے بس منگواتے چلے جاتے ہیں اور جب کھایا نہیں جاتا تو سارا کھانا ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ وہ بچا کھچا کھانا کسی کے استعمال کا نہیں رہتا وہ کوڑا دان میں ہی پھینکا جاتا ہے ـ ۔ شادی بیاہ پر بھی کھانے کا ضیاع دیکھنے کو ملتا ہے ایک تو کھانا زیادہ بنایا جاتا ہے کہ کہیں کھانا کم نہ ہو جائے کیونکہ کھانا کم ہو جانا برادری میں بہت برا سمجھا جاتا ہے بالکل اسی طرح لوگ بھی شادی بیاہ میں جیسے صرف کھانے کیلئے جاتے ہیں ـ سب اپنی پلیٹیں اس طرح بھر لیتے ہیں جیسے ان کو دوبارہ کھانا نہیں ملے گا یا نہ جانے کب سے بھوکے بیٹھے تھے ـ لیکن افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ پلیٹیں تو بوٹیوں اور لوازمات سے بھر لیتے ہیں لیکن کھا نہیں پاتے اور زیادہ تر ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں جو ظاہر ہے کوڑے دان میں ہی پھینکا جاتا ہے ـ کھانا شادی کا ہو یا مرگ کا، لوگ نادیدوں کی طرح کھاتے ہیں ـ کھا لینا تو ٹھیک ہے اور لیکن بے حساب ضائع بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو کہ انتہائی افسوس ناک بلکہ شرم ناک عمل ہے ـ ۔ سچ کہتے ہیں کہ جس کا پیٹ بھرا ہو ‘ بھوک کی تکلیف سے نہ گزرا ہو اسے کیسے احساس ہو گا کہ غریب آدمی کو ایک وقت کی روٹی حاصل کرنے کیلئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور پھر بھی ان کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا ـ کئی بچوں کو بھوکے پیٹ ہی سونا پڑتا ہے ـ جب کہ ایک خاص طبقہ خوراک کو بغیر سوچے سمجھے ضائع کر دیتا ہے ـ۔ متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ ہوٹل، ریسٹورانٹ اور دیگر دکان داروں کیلئے سخت اصول و ضوابط طے کریں اور ان پر عمل کروائیں تاکہ کھانے پینے کی اشیاء کا ضیاع روکا جا سکے ـ شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی کھانے پینے کی اشیاء کو ضائع ہونے سے نہ صرف بچایا جائے بلکہ بچے ہوئے یا اضافی کھانے کی غرباء میں تقسیم کو یقینی بنایا جائے تاکہ بچے بھوکے نہ سوئیں اور غریب کا بھلا کر کےجنت کمائی جا سکے ۔ ہمیں کھانے کا احترام کرنا خود بھی سیکھنا ہو گا اور اپنے بچوں کو بھی سمجھانا ہو گا کیونکہ یہ رزق اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے جس کیلئے ہر کوئی سرگرداں ہے ـ اگر ہم اس نعمت کی بے قدری کریں گے تو اپنے رب کو ناراض کرنے کے مرتکب ہوں گے اس کے ساتھ ہی غذا کی قلت کا بھی شکار ہو جائیں گے جو ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ـ ۔
آج کے نفسانفسی اور مادہ پرستی کے دور میں ہم اپنے دین اور انسانیت سے بہت دور ہو گئے ہیںـ ہم انسانوں تک کا خیال نہیں کرتے یہ تو پھرجانوروں کی بات کی گئی ہے ـ آج انسان بھوک و افلاس کی انتہا کو چھو رہے ہیں لیکن کوئی پرسانِ حال نہیں اور نہ ہی کسی کو فرق پڑتا ہے کیونکہ سب اپنی دنیا میں مگن ہیں ـ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ قدرت ہمیں دے کر بھی آزماتی ہے اور لے کر بھی آزماتی ہے لہٰذا خلقِ خدا کا خیال کرنے میں ہی بھلائی پوشیدہ ہے ـ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button