آج کے کالمضیاء الحق سرحدی

بجلی صارفین سے اربوںروپے کی ناجائز وصولی

ضیا سرحدی

گزشتہ دنوں ملک میں بجلی صارفین سے اربوں روپے کی اوور بلنگ کے بڑے سکینڈل کا انکشاف ہوا ہے جہاں پاور ڈویژن کا دعوی6 ہے کہ بجلی کی کل پیداوار48ہزارمیگاواٹ جبکہ اس کی ترسیل 26 ہزار میگاواٹ سے زیادہ نہیں لیکن اس نے صارفین کا لوڈ 175,247 میگاواٹ ظاہر کیا اور ان سے دھوکہ دہی سے بھاری رقوم وصول کی ہیں۔ بوگس بلنگ، مبالغہ آرائی اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر لوڈ شیڈنگ جس کے نتیجے میں قوم پر کھربوں روپے کے گردشی قرضے ہیںاسی طرح کراچی میں کے الیکٹرک کی ریکارڈ پیداواری صلاحیت3 ہزار555 میگاواٹ ہے جبکہ صارفین تک اس کی ترسیل صرف 2200 میگاواٹ ہے لیکن اس نے صارفین کو 15 ہزار241اواٹ پر حقیقی تقسیم کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس لئے کراچی اور دوسرے شہروں کے صارفین روزانہ چھ سے بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں لیکن اس مافیا کی جانب سے مختلف سروں پر ہر ماہ جعلی بلنگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔سب سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اوپر بتائی 3ہزار555میگاواٹ کے دعویٰ کی صلاحیت میں سےKE کی اپنی خالص پیداواری صلاحیت صرف ایک ہزار875میگاواٹ ہے جبکہ باقی ایک ہزار680میگاواٹ آئی پی پیزاور دیگر بیرونی ذرائع سے خریدی جا رہی ہے۔ یہ سب سے سنگین مجرمانہ جرم ہے کہ اس نے پورے شہر میں تانبے کی تاریں ہٹا دی ہیں اور ان کی جگہ خراب ایلومینیم کنڈکٹر کیبلز لگا دی ہیں۔پاکستان میں اوور بلنگ کے نام پر اپنی
نوعیت کا سب سے بڑا سکینڈل سامنے آ گیا، جس میں پہلے سے مہنگی بجلی کے باوجود صارفین سے اوور بلنگ کے ذریعے اربوں روپے اضافی وصول کیے گئے ہیں۔ اگست میں تقسیم کار کمپنیوں نے بجلی صارفین سے اربوں روپے زائد کے بل وصول کیے۔ نیپر انے اگست میں اوور بلنگ کے معاملے پر نوٹس اور انکوائری کا فیصلہ کیا تھا۔ انکوائری رپورٹ میں اگست کے بلوں میں اوور بلنگ ثابت ہوگئی۔ اربوں روپے کی اوور بلنگ میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں ملوث پائی گئیں۔ تمام تقسیم کار کمپنیوں نے غریب عوام کو اوور بلنگ کے ذریعے لوٹا۔ نیپرا ذرائع کے مطابق لیسکو اور حسیکو ریجن میں سب سے زیادہ اوور بلنگ ہوئی، ڈسکوز کی جانب سے پروٹیکٹڈ صارفین سے نان پروٹیکٹیڈ والے بل وصول کیے گئے اور اوور بلنگ کیلئے ریڈنگ میں تاخیر کا حربہ استعمال کیا گیا۔ ریڈنگ میں تاخیر کر کے پروٹیکٹیڈ صارفین کو نان پروٹیکٹیڈ میں شامل کیا گیااور مقررہ تاریخ کے بجائے جان بوجھ کر 3 سے 4 دن تاخیر سے ریڈنگ لی گئی۔ لیسکو اور حیسکو کے علاوہ دیگر ڈسکوز میں بھی اوور بلنگ ہوئی۔ نان پروٹیکٹیڈ صارفین سے بھی اوور بلنگ کی گئی۔ ڈسکوز کی جانب سے میٹر تبدیلی کے نام پر بھی اضافی وصولیاں کی گئیں۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے ڈسکوز کی اوور بلنگ سے متعلق رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ کر لیاہے۔
واضح رہے کہ نیپرانے ماہ ستمبر میں ڈسکوز کی جانب سے اوور بلنگ کے معاملے کا نوٹس لیا تھا۔ نیپرا کو بڑی تعداد میں صارفین سے اوور بلنگ کی شکایات موصول ہوئی تھیں۔ اتھارٹی نے معاملے پر انکوائری کمیٹی تشکیل دی، جس نے رپورٹ رواں ہفتے مکمل کی اور انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی جس نے رپورٹ رواں ہفتے مکمل کر لی ہے۔عوام کا المیہ یہ ہے کہ مہنگائی کے طوفان میں وہ اس طرح سے بے دست و پا ہیں کہ حکومت اور اس کے ادارے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے مزید لوٹ مار کرنے اور ان کی جیب کاٹنے کیلئے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ حکومت نے اپنے خسارے پورے کرنے اور آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کی خاطر پیٹرول اور بجلی کو ہدف بنارکھا ہے، پیٹرول اپنی قیمت سے کم از کم بھی نصف دو گنازیادہ قیمت پر فروخت ہورہا ہے، بجلی پر کتنی قسم کے ٹیکس ہیں ، انہیں شمار کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس کے باوجود ڈسکوز نے غیر اخلاقی، غیر قانونی حرکت کرتے ہوئے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا اور نا جائز طور پر اضافہ بل وصول کئے ، جسے دھو کہ اور فراڈ کے سوا کوئی دوسرا نام دینا ممکن نہیں ہے۔ جرم نیپرا کی تحقیقات میں ثابت ہو چکا ہے، اب صرف تحقیقاتی رپورٹ شائع کر دینا کوئی سزا نہیں ، لازم ہے کہ پہلے مرحلہ میں فوری طور پر عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کیا جائے ، اور حکومت اس مجرمانہ حرکت کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے ان کے خلاف مجرمانہ اقدامات کے مقدمات درج کرکے، گرفتار کیا جائے۔ حکومت اگر کوئی ایکشن نہیں لیتی تو لازم ہے کہ سپریم کورٹ از خود نوٹس کے تحت کارروائی کرے تا کہ ان مجرموں کو قرار واقعی سزادی جائے۔ایک طرف آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں۔ اسلام آباد میں سرکاری دفاتر اور رہائشگاہوں کو سالانہ 10 ارب روپے کی مفت کلی فراہم ہوتی ہے۔ غریب لا چار مفلس اور دو وقت کی روٹی کے حصول کیلئے دردر ٹھوکریں کھانے والی عوام کیساتھ یہ بھونڈ امذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ ماہانہ بیسںپچیس ہزار روپے تنخواہ لینے والے افراد پر تو بھاری ٹیکس ڈال کر ان سے بجلی اور گیس کے بلوں کی مد میں بھاری رقوم وصول کی جاری ہیںجبکہ بیورو کریسی کو دس ارب روپے کی سالانہ مفت بجلی کی سہولت میسر ہے، بھاری سودی قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک کیساتھ یہ صریحاً زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔ مملکت خداداد میں ایسا لگتا ہے کہ عوام کے سر پر تو زخیرہ اندوزوں، بلیک میلروں اور کالی بھیڑوں کو مسلط کردیا گیا ہے جبکہ ملک کے ایک خاص طبقہ نے سہولیات اور مراعات کو صرف اپنا حق سمجھ رکھا ہے۔ یہ کیسا دوہرا نظام ہے۔ خدارا پاکستان اور اس کے غریب عوام پر رحم کھایا جائے اور اشرافیہ کی مراعات مفت بجلی کی سہولت کو فوری ختم کیا جائے ،عوام پہلے ہی حکمرانوں سے نالاں ہے، اسے مزید بر انگیختہ نہ کیا جائے۔
ziaulhaqsarhadi@gmail.com

جواب دیں

Back to top button