ایمان والے اللہ کے دوست

دین قبول کروانے میں کوئی زبر دستی نہیں ہے، اس لئے کہ ہدایت اور گمراہی دین اور بے دینی، اسلام اور کفر واضح کر دیئے گئے ہیں۔اب جو شیطان کی بات کا انکار کرے گا اور اللہ پر ایمان لائے گا۔ اس نے ایک بہت ہی مضبوط حلقہ تھام لیا۔ جسے کبھی ٹوٹنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اللہ کریم خوب سننے والے بھی ہیں جاننے والے بھی ہیں۔ دین میں زبردستی نہیں ہے۔ اللہ کریم نے مخلوق کو امور عادیہ کا قیدی بنا دیا ہے۔ اور ہر چیز، ہر شے، ہر مخلوق اپنی فطری اور طبعی عادت کے مطابق عمر بسر کرتی ہے۔ ان کو اسباب ہی ایسے دیئے گئے ہیں، مزاج ایسے دیے گئے ہیں، فطرت ایسی بنا دی گئی ہے۔ اگر درندے کو گھا س کھانا پڑے تو اس کا معدہ گھاس کو ہضم ہی نہیں کرتا۔ اگر گھاس چرنے والے جانور کو آپ گوشت کھلائیں تو اس کے معدے میں گوشت ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اسی طرح سے اللہ کی ساری مخلوق اس کی دی ہوئی فطرت اور جبلی عادتوں کے مطابق اپنا وقت بسر کرتی ہے۔ انسان بھی بڑی حد تک اپنی فطری پسند میں دخل نہیں دے سکتا۔ اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہو سکتا، اپنی مرضی سے شکل نہیں بنا سکتا، اپنی مرضی سے اپنی فطری صلاحیتوں کو تبدیل نہیں کر سکتا، صحت و بیماری، زندگی اور موت پہ اختیار نہیں رکھتا۔ فطرت کے قانون کے مطابق یہ بھی چلتا رہتا ہے لیکن باقی مخلوق کی نسبت اسے جو ایک اضافی وصف دیا ہے، وہ ہے اللہ کی پہچان کرنا۔ ساری مخلوق صرف حاکم کے حکم کی تابع ہے لیکن انسان ایسی مخلوق ہے جس کی نگاہ حاکم کی طرف اٹھتی ہے۔ یہ جاننا چاہتا ہے کہ حکم دینے والا کون ہے۔ مجھے کس نے پیدا کیا، کون ہے میرا خالق، کون ہے جو اس جہان کو چلا رہا ہے، کون ہے اتنا بڑا صانع جس نے یہ ساری تخلیق بنا دی اور اتنی بڑی کارگہہ حیات قائم کر دی اور کون ہے ایسا قادر جو اسے باقاعدگی سے چلا رہا ہے؟ یہ سوال انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا، اسے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی استعداد عطا کی گئی۔ اب اس کے بعد اسے مجبور نہیں کیا گیا کہ یہ ضرور مانے اور یہی امتحان ہے، یہی انسان کا اختیار بھی ہے۔ ایک طرف انبیاء و رسل علیہم الصلوٰۃ والسلام مبعوث فرمائے، اپنی ہدایت کی کتابیں نازل فرمائیں، ہدایت کے پیغام کو جاری و ساری رکھا اور انشاء اللہ العزیز قیام قیامت تک اللہ کے بندے اللہ کا پیغام پہنچاتے رہیں گے، یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
اب انسانوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ اللہ کے اس پیغام کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ اس میں زبردستی نہیں کی جائے گی۔ اگر وہ زبردستی چاہتا تو خود ساری مخلوق سے اپنے آپ کو منوا لیتا۔ اس کی دی ہوئی قدرت سے ہم سانس لیتے ہیں، اگر وہ روک دے تو دوسری سانس نہیں آتی۔ اگر وہ فطرتاً اور حکماً منوانا چاہتا تو کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی لیکن جب انسان کو اس سوال کا شعور بخشا کہ میرا خالق کون ہے اور صحیح جواب پانے کے ذرائع بھی مہیا کر دیئے تو اسے یہ موقع دیا گیا کہ وہ اپنے خالق کو پہچانتا ہے، اللہ کے پیغام کو قبول کرتا ہے یا نہیں۔
اس کا یہ معنی نہیں لیا جائے گا کہ جو اس کا جی چاہے وہ کرے اسے روکا نہ جائے۔اس کا معنی یہ ہے کہ اگر کوئی اسلام قبول نہیں کرنا چاہتا تو زبردستی قبول نہیں کرایا جائے گا لیکن جب وہ معاشرے میں رہتا ہے تو جو اصول و ضوابط ہیں وہ اس کو بھی ماننے پڑیں گے۔ قرآن کریم نے اسلامی ریاست و معاشرے کے خدوخال واضح کر دیے ہیں۔ اس میں جائز و ناجائز اور حلال و حرام کا فرق بتلا دیا ہے۔ بعض ایسی حقیقتیں ہیں جو بین الاقوامی ہیں مثلاً کوئی شخص، مومن یاکافر، یہ نہیں کہتا کہ جھوٹ بولا جائے۔ یہ ایک بین الاقوامی مسلمہ اصول ہے کہ بات سچی کی جائے۔ یہ بھی بین الاقوامی مسلمہ اصول ہے کہ کسی دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ لیا جائے۔ کسی دوسرے کی عزت و آبرو خراب نہ کی جائے۔
اسلام کے بیشتر اصول تو وہ ہیں جو بین الاقوامی طور پر مسلمہ ہیں۔ کوئی مسلمان ہے یا نہیں لیکن وہ ان سب کو ضروری اور اچھا سمجھتا ہے۔ جو ایمان نہیں لائے گا، اسے بھی معاشرے کے قوانین و ضوابط کی پاسداری کرنا پڑے گی اور جو ایمان لاتا ہے اسے کماحقہ دین کا اتباع کرنا پڑے گا۔ اگر وہ دین کے اتباع سے جی چراتا ہے تو معاشرے کو چلانے کے ذمہ دار حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ کلمہ پڑھنے کے بعد جو شخص دین پر عمل نہیں کرتا اس کی باز پرس کی جائے اور اسلام نے جو سزائیں مقررکر دی ہیں،ان کے مطابق اسے سزا دی جائے ۔ مثلاً آپ فرائض و عبادات ہی کو لے لیں، اگر کوئی جان بوجھ کر فرائض ترک کر دیتا ہے تو اسے حکم دیا جائے۔ اگر وہ عمل نہیں کرتا تو اسے سزا دی جائے اور اگر پھر بھی عمل نہیں کرتا اور اسی حال میں مرجاتا ہے تو امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل علیہم الرحمۃ فرماتے ہیں کہ اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے، اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے۔ ائمہ ثلاثہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر وہ مسلسل تارک الصلوٰۃ ہے تو اسے سزائے موت دی جائے اور پھر اس کا جنازہ بھی نہ پڑھا جائے، اسے مسلمانوں کے ساتھ دفن بھی نہ کیا جائے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ جب ایمان کا انکار نہیں کرتا تو یہ بھی ایک نیکی ہے‘ ایک نیک عمل ہے کہ وہ ایمان تو لایا۔ اب صلوٰۃ کا انکار کرے تو پھر تو کافر ہو جائے گا لیکن انکار نہیں کرتا تو گناہگار ہے، اسے قتل نہ کیا جائے اور اسے زندگی بھر جیل میں رکھا جائے کہ شاید کبھی توبہ کر لے اورنماز اداکرنے لگے لیکن اگر اسی حال میں مرجاتا ہے تو پھر وہ بھی فرماتے ہیں کہ اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے‘ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے۔
ہمارے عہد میں لااکراہ فی الدین سے یہ معنی لے لیا گیا ہے کہ دین ذاتی معاملہ ہے اور حکومت کا اس سے کوئی سروکار نہیں۔ کوئی نماز پڑھتا ہے پڑھے، نہیں پڑھتا نہ پڑھے، کوئی روزہ رکھتا ہے رکھے نہیں رکھتا نہ رکھے، ایسا نہیں ہے۔ حکومت اس کی ذمہ دار ہے اور جو دین قبول کرتا ہے، و ہ جب دین میں کوتاہی کرے گا تو سزا کا مستحق بھی ہے۔ تاکیداً اسے دین پر عمل کرانا حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔ لااکراہ فی الدینکا مفہوم یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو مسلمان ہونے پر زبردستی نہ کی جائے۔ اسلام نے انسانی حقوق غیر مسلم کو بھی عطا فرمائے ہیں۔ وہ معاشرے میں رہ سکتا ہے۔ اس کی جان، مال آبرو کی حفاظت کی جائے گی۔ اس کی حدود متعین ہیں کہ کہاں تک اس کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے گا، بیمار ہو گا تو اس کا علاج کیا جائے گا، اس کے بچوں کو تعلیم کی سہولت دی جائے گی باقی سارے انسانی حقوق پورے کئے جائیں گے لیکن جو حقوق محض مسلمان ہونے کے ہیں مثلاً اسلامی اعزاز و اکرام ہے، اسلامی عبادات گاہوں میں جا کر عبادت کرنے کا حق ہے، حج ہے یا زکوٰۃ ہے تو اس طرح کے حقوق صرف مسلمان کے ہیں۔ لااکراہ فی الدینکا مفہوم یہ ہے کہ دین کو قبول کرنے میں کسی پر زبردستی نہیں کی جائے گی۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے زبردستی فوج میں بھرتی نہ کیا جائے لیکن جو فوج میں بھرتی ہو جاتا ہے تو اس کی مجبوری ہے کہ ان قواعد پر عمل کرے ا ور اگر خلاف ورزی کرتا ہے تو سزا پاتا ہے۔ یہی حال یہاں بھی ہے کہ دین قبول کرانے میں زبردستی نہیں کی جائے گی لیکن جو کلمہ گو دین میں سستی کرتے ہیں اور دین پر عمل نہیں کرتے، وہ شرعی سزاؤں کے مستحق ہیں۔ حکمران جو معاشرے کو چلانے کے ذمہ دارہیں، اللہ کے حضور وہ اس کے ذمہ دارہیں۔
دین قبول کرنے میں اس لئے زبردستی نہیں کی جائے گی کہ انسان کو اللہ نے شعور دیا۔ پھر انبیاء و رسل علیہم الصلوٰۃ والسلام اور کتابیں بھیج کر سامان ہدایت مکمل کر دیے۔ بغاوت اور کفر سے اطاعت اور دین کا راستہ بالکل روشن اور واضح ہو کر الگ ہو گیا اور دونوں راستے صاف ہو گئے کہ اللہ کو ماننے کا، اطاعت کا یہ راستہ ہے اور بغاوت کا وہ راستہ ہے۔ اب انسان کے پاس اختیار ہے کہ وہ کس راستے پہ چلتا ہے۔ باتیں دو ہی ہیں، اللہ کی رحمن کی بات ہے یا اس کے مقابلے میں شیطان کی بات ہے۔ آدمی دو میں سے ایک طریقے پہ ضرور چلتا ہے، اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے دین کی پیروی کرتا ہے اور جہاں سے بھی دین کو چھوڑتا ہے وہاں وہ شیطان کی پیروی کرتا ہے۔ فرمایا: جس نے شیطان کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے بہت مضبوط حلقے کو تھام لیا، اسے بہت مضبوط آسرا مل گیا۔ وہ ایک بہت مضبوط حصار میں آ گیا جہاں اسے اللہ کا تحفظ حاصل ہے اور وہ ایسا حصار ہے جس کی شکستگی کا کوئی امکان، کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ اللہ کریم خود جاننے والے بھی ہیں، سننے والے بھی ہیں۔ اگر کوئی قولاً کہتا ہے کہ میں ایمان لایا تو وہ خود سنتے ہیں اور اس کے دل میں کیا کیفیت ہے، اسے اللہ جاننے والے ہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ یہ خلوص سے ایمان لایا یا منافقت کر رہا ہے۔ اس کے دل نے بھی مانا یا صرف زبان مان رہی ہے۔ اللہ سنتا بھی ہے،جانتا بھی ہے۔