خانہ بدوشوں کی زندگی ،وسائل اور مسائل

محمد اکرم
ہمارے معاشرے میں مختلف قسم کے قبائل آباد ہیں اور طرح طرح کے لوگ رہتے ہیں ان کا رہن سہن اور زندگی بسرکرنے کا انداز بھی مختلف ہوتا ہے ان میں ایک خانہ بدوش ہیں انہیں دوسرے لفظوں میں بنجارے ،پکھی واس اور جھونپڑیوں میں رہنے والے بھی کہا جاتاہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا اور نہ ان کا کوئی مستقل گھر ہوتاہے۔ یہ لوگ جگہ جگہ گھوم پھر کر زندگی بسرکرتے ہیں،ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں قریباً تین سے چار کروڑ خانہ بدوش ہوں گے ۔ان کا طرز زندگی مختلف ہے، ان کا ذریعہ معاش مختلف ممالک میں مختلف ہے جن خانہ بدوشوں کا تعلق ترقی یافتہ ممالک سے ہے وہاں کے لو گ ان ممالک کے وسائل کے مطابق زندگی بسرکرتے ہیں، یہ لو گ گلہ بانی ،دستکاری اور تجارت بھی کر تے ہیں مگر ایسے خانہ بدوش جو غریب ممالک میں رہتے ہیں وہاں ان کیلئے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے روزگار کے حصول میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اوربھیک مانگ کر گزارہ کرتے ہیں ان کی ثقافت اور ان کے رسم ورواج دوسرے لوگوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں، ان لوگوںکے اگر وسائل الگ اور مختلف ہیں اور تو ان کے مسائل بھی بہت مختلف ہیں پاکستان جیسے غریب اور ترقی پذیر ملک میں ان خانہ بدوشوں کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں مگر ان کے مسائل بہت زیادہ ہیں ۔
ان خانہ بدوشوں کی زندگی کو قریب سے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مسائل و وسائل کیا ہیں۔ ہمارے ملک کے اندر مختلف علاقوں میں خانہ بدوشوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو معلوم نہیں کہ کہاں کہاں سے ہجرت کرکے رہ رہے ہیں، لاہور کے ایک علاقے میں رہائش پذیر ایک خانہ بدوش کے مطابق ان کے باپ دادا جہلم کے قریب گورو گورکھ ناتھ کے ٹیلے پر رہتے تھے گورنمنٹ نے وہاں سے اٹھا دیا تو جہاں جگہ ملی جھونپڑی بناکر رہنا شروع کردیا ۔ان کے پاس نہ کوئی زمین ہے اور نہ کوئی کاروبار، کھیل تماشا کرکے بچوں کا پیٹ پالتے ہیںجب ان سے ان کے ذریعہ معاش کے بارے پوچھا گیا تو ان کا کہناتھاکہ سرمہ بناکر ،آنکھ کی دوائی تیار کرکے،چنبل کا علاج کرکے کان خراب ہو تو اس کی دوائی دے کر جو کچھ روپیہ پیسہ مل جا تا ہے اس سے گز راوقات کر لیتے ہیں۔جن کے پاس اس طرح کا کوئی ہنر نہیںتو وہ بھیک مانگ کر گزارہ کرتے ہیںمگر اب پولیس والو ں نے سختی کردی ہے وہ پکڑ لیتے ہیں جو تھوڑی بہت رقم پاس ہوتی وہ بھی چھین لی جاتی ہے۔ ہم میں سے کئی لوگ گھروں کا کوڑا کرکٹ اٹھاتے ہیں،ریڑھیوںپر لوگوں کا سامان ڈھوتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جس طرح خوشحال لوگوں کے بچے خوشحالی کی زندگی بسر کرتے ہیں ہمارا دل بھی کرتا ہے ہمارے بچے بھی دنیا کی طرح طرح کی نعمتوںسے لطف اندوز ہوں مگر اتنے وسائل ہی نہیں ہیں کہ ہم بھی زندگی کو پرلطف بناسکیں
لاہور کے ڈبن پورہ کے علاقے میں رہنے والے خانہ بدوشوںمیں سے ایک گھرانے کا کہنا تھا کہ کسی وکیل نے ان کے بچوںکے مستقبل کا احساس کرتے ہوئےان کی جھونپڑیوں کے اندر ہی ایک چھوٹا سا سکول ’’شیلٹر جھگی سکول‘‘ کے نام سے بنایا تھا جہاں پر ان جھگیوں میں رہنے والے بچوں کیلئے مفت تعلیم دینے کا بندوبست کیا گیا تھامگر کمیٹی والوں کو شاید ان کے بچوں کا اس طرح مفت تعلیم حاصل کرنا اچھا نہیں لگا تھا اور جھگی نما سکول اکھاڑ پھینک دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سے لو گ ووٹ ما نگنے آتے ہیں تو وہ ہمارے لئے کچھ نہ کچھ کرنے کا وعدہ کرتے ہیں مگر ووٹوں کے بعدہماری طرف رخ نہیں کرتے ۔ہم جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں حکومت ہمارے بارے میں کچھ نہیں سوچتی یہاں جوکچھ ہورہا ہے امیروں کیلئے ہو رہا ہے سڑکیں ،پل اور یہ اورنج ٹرینیں اور میٹرو بسیں چل رہی ہیں اس سے ہمیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا،ہمیں ان سب چیزوں سے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔
جہاں تک ہمارے ملک میں رہنے والے خانہ بدوشوں ،جھونپڑویوں میں رہنے والوں اور پکھی واسوں کا تعلق ہے تو اگر ان کی زندگی کی قریب سے دیکھا جائے اور ان کے وسائل اور مسائل کی حقیقت کو جانا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ مختلف قسم کے مسائل اور مصیبتوں میں گھرے ہوئے لو گ بہت ہی تنگی کی زندگی بسر کررہے ہیںیہ لو گ کھلے میدانوں میں یاپھر آبادی کے اندر جہاں انہیں کوئی خالی جگہ مل جائے وہاں جھونپڑیاں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ان کے مطابق اگروہ کسی جنگل میں بھی جاکر جھونپڑیا ں بنالیں تو وہ بھی آباد ہو جاتے ہیںان کے ہاں نہ تو بجلی کی سہولت پائی جاتی ہے اور نہ گیس اور پانی میسر ہے گرمیوں کے موسم میں جہاں ان کے بڑے گرمی کی شدت کو محسوس کرتے ہیں وہیںبچے بھی سخت گرمی کی وجہ سے بلک رہے ہوتے ہیں اسی طرح سخت سردیوں میں انہیں سردی کی شدت کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اگر ایک لمحے کیلئے سوچا جائے کہ جب سخت آندھی اور زور بارشیں آتی ہوں گی تو ان جھگیوں اور جھونپڑیوں میں رہنے والوں کی کیا حالت ہوتی ہوگی۔گرمیوں اور سردیوں کے موسم کی شدت ان پرکس طرح سے اثرانداز ہوتی ہے اس کا اندازہ ان کے اندر رہنے والے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔پانی کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو ساتھ والی کوٹھیوں میں پانی مانگنے کیلئے جانا پڑتا ہے اگر کوئی صاحب ان پر تر س کھالے تو پانی مل جاتا ہے ورنہ طعنہ زنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان خانہ بدوشوں کی نہ تو کوئی زمین ہے اور نہ کوئی گھر یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ مردم شماری کے کسی حصے میں نہیں آتے ہوں گے کیونکہ نہ تو ان کا کوئی گھرانہ نمبر نہ کوئی گلی محلہ ہے۔ان کیلئے لیٹرین تک سہولت موجود نہیں۔ ہمارے ارباب اقتدار و اختیار کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کیلئے کوئی نرم گوشہ رکھتے ہوئے حکومتی سطح پر سروے کروائیں اور ان کے رہنے کیلئے کسی ایسی جگہ بندوبست کردیاجائے جہاںیہ لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ دربدر کی ٹھوکریں کھانے کی بجائے اچھی زندگی بسر کرسکیں۔ان کیلئے کسی روزگار بندوبست بھی کردیا جائے تو ان کیلئے زندگی گزارنا نہ صرف آسان ہوجائے گا بلکہ ان کی آنے والی نسلوں کیلئے بہت سارے وسائل اپنانے کیلئے بہت ساری راہیں کھل جائیں گی۔ہرانسان کو زندہ رہنے کا بنیادی حق حاصل ہے اور زندہ رہنے کیلئے جو بنیادی ضروریات ہیں مثلاً رہائش،کھانا پینا،بیمارہونے کی صورت علاج معالجے کی سہولیات تو یہ سب چیزیں ہر انسان کیلئے بہت ضروری ہیں ان کے بغیر گزارا نہیں ہے۔تو ہمارے معاشرے میں جولوگ انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں توان کیلئے ان سب چیزوں کا میسر کرنا اربابِ اقتدار و اختیارات کے ذمے ہے بالخصوص خانہ بدوشانہ زندگی بسرکرنے والوںکو اگر قریب سے دیکھا جائے اور ان کے وسائل،ذرائع آمدنی کے بارے جانا جائے اور پھر ان کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے یہ لوگ کس قدر تنگدستی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔یہ لوگ بھی ہمارے معاشرے کا ہی حصہ ہیں ان کیلئے ایسے وسائل و ذرائع آمدنی مہیا کردیے جائیں جن سے یہ اپنی زندگی بہتر انداز سے بسر کرسکیں اور ان کے بچوں کو کسی بھی قسم کا احساسِ کمتری نہ ہونے پائے۔امید ہے کہ ہمارے ملک کے ارباب اقتدار ان جھونپڑیوں میں رہنے والوں کی طرف بھی توجہ دیں گے اور ان کیلئے بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے ہر ممکن اقدام کریں گے۔