ایڈیٹوریل

میاں نوازشریف کی ایون فیلڈ ریفرنس میں بریت

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی گیارہ سال قید کی سزا کالعدم قرار دے کر انہیں بری کردیا ہے۔ میاں نوازشریف کے خلاف یہ ریفرنس نیب نے دائر کیا تھا، عدالت سے میاں محمد نوازشریف کو گیارہ سال قید کی سزا سنائی گئی لیکن بالآخر نیب نے ریفرنس واپس لے لیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے سزا کالعدم قرار دے کر میاں نوازشریف کو بری کردیایوں ریفرنس کی تیاری سے لیکر کیس کی پیروی تک قوم کا وقت اور پیسہ بھی ضائع ہوا اور ایک سابق وزیراعظم کا تشخص بھی اتنے سال تک مجروح کیاجاتا رہا۔ ایون فیلڈ ریفرنس اور ایسے تمام کیسز جو سالہا سال کی سماعت کے بعد ختم ہوجاتے ہیں اور نتیجے میں مدعا علیہان اپنے الزامات الزام علیہان کے خلاف ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں اِس کا کوئی سدباب ہونا چاہیے، لیکن اِس کے برعکس ہمارا نظام دکھاتا رہتا ہے کہ کسی راہ گیر کو پولیس ایسے مقدمے میں گرفتار کرلیتی ہے جو الزام علیہان کی سات نسلوں نے نہیں کیا ہوتا، چونکہ قانون میں یہ سقم موجود ہے لہٰذا کسی بھی ادارے سے منسلک کوئی بھی بااثر اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کرکے کسی کی عزت خاک میں ملانے میں با اختیار ہوتا ہے، بالکل اسی طرح اداروں میں جھوٹی درخواست بازی کرکے وسائل اوروقت بھی برباد کئے جاتے ہیں اور الزام علیہ کو بھی اذیت دیتی ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کالعدم ہونا اِس کی بڑی مثال ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اداروں کو زیادہ بااثر اداروں اور شخصیات کے بااثر نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر ادارے کو اپنے قوانین کے مطابق کھل کر کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے تاکہ وہ بغیر کسی دبائو کے میرٹ پر اپنا کام کرسکے۔ ہماری عدالتوں میں التوا کا شکار کیسز کی تعداد انتہائی تشویش ناک ہے اور ہم بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اِن میں ایسے بھی کیسز ہوں گے جو صرف اور صرف وجہ عناد کی وجہ سے قائم کئے گئے ہوں گے خواہ اِن میں قتل کے کیسز ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ جب بھی پولیس تھانے میں کسی کے خلاف مقدمہ درج کرایا جاتا ہے تو اصل ملزم کے ساتھ وغیرہ اور نامعلوم افراد بھی لکھ دیا جاتا ہے تاکہ بوقت ضرورت کسی کو بھی پھانسا جاسکے، لہٰذا اصل مجرم کے ساتھ اُس کے عزیز و اقارب بھی دھر لئے جاتے ہیں۔ یہ طرہ صرف تھانوں کی سطح پر نہیں ہوتا بلکہ تھانوں سے لیکر اقتدار کے ایوانوں تک جاتا ہے وہاںبھی سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے دور اقتدار میں ایسے حربے اپنائے جاتے ہیں اور حزب اختلاف میں ہونے کی وجہ سے تمام ریاستی ادارے اسی پر لشکر کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہ خرابی اوپر سے نیچے تک ہر جگہ موجود ہے، بااثر شخصیات اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرکے جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز قرار کروادیتی ہیں، یوں سالہا سال سے خرابیاں جڑ پکڑنے کے بعد تن آور درخت بن چکی ہیں لیکن اِن کو جڑوں سے کاٹ پھینکنا انتہائی ناگزیر ہے وگرنہ ہمارے معاشرے اور انسانیت کی جڑیں کھوکھلی ہوجائیں گی۔ ہر سطح پر مخالفین کو کچلنے کی روش انتہائی خطرناک ہے، جو بااثر نہیں ہوتا وہ خود قانون کو ہاتھ میں لیکر خود ہی منصف بن جاتا ہے اور جو صاحبِ اقتدار یا بااثر و بااختیار ہوتا ہے وہ اداروں کاسہارا لیکر کسی کو بھی شکنجے میں کس دیتا ہے۔ ہم نے ماضی میں وطن عزیز کی معتبر شخصیات کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دیکھا اور طویل سزا کے بعد وہ بے گناہ ثابت ہوکر سرخرو ہوئے۔ ان میں خود میاں نوازشریف سمیت شریف خاندان کے افراد، بھٹو خاندان اور کئی ایسے سیاسی خاندان ہیں جن کو زیر عتاب لایاگیا، عوام میں بدگمانی بھی پیدا کی گئی لیکن نتیجہ بالآخر وہی نکلا جو ایون فیلڈ ریفرنس کانکلا۔ ہماری ملی ترقی کا سفر شروع نہ ہونے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم اِن پسند و ناپسند کے مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں اور ہمیں پرواہ ہی نہیں کہ قومیں مہذب معاشرے کاروپ دھار چکی ہیں مگر آج بھی ہمارے یہاں ادارے کمزور اور شخصیات بااثر ثابت ہوتی آئی ہیں کیونکہ ہم نے کوشش ہی نہیں کی کہ اُن خامیوں کو دور کرکے آگے بڑھ سکیں جو ہماری پہچان کو مسخ کررہی ہیں اور افسوس اس کج بحثی، چپقلش اور عناد کو ختم کرنے کے لئے سنجیدگی تو دور کوشش کی ابتدا بھی نہیں کی جاتی۔ لہٰذا عام پاکستانی کا تو کوئی پرسان حال ہے ہی نہیں قومی سطح کی شخصیات خود بھی اِن مسائل اور خرابیوں کا شکار بنتی ہیں اور اقتدار آنے پر اِن کا بھرپور سُود سمیت بدلہ بھی چکاتی ہیں۔ ایک دوسرے کے گھر مسمار کئے جاتے ہیں، غیر سیاسی خواتین خانہ کی بے حرمتی بھی کی جاتی ہے مگر افسوس کہ ان خرابیوں کو ٹھیک کرنے کے لئے پہل نہیں کی جاتی۔ میاں نوازشریف اگر باقی کیسز میں بھی بے گناہ قرار دے دیئے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ اُنہیں ملکی سیاست اور جمہوری عمل سے دور رکھنے کی کوشش تو کی گئی ساتھ ہی انہیں جیل میں ڈال کر اذیت میں بھی مبتلا کیاگیا۔ چند روز قبل ہی میاں محمد نوازشریف نے کہا کہ وہ صبح وزیر اعظم اور رات کو ہائی جیکر بنادیئے گئے، یہ سچ ہے مگر ایسا صرف میاں نوازشریف ہی کے ساتھ نہیں ہوا ، ماضی کے حکمران بھی ایسے مصائب کا سامنا کرچکے ہیں یہاں تک ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دارپہ لٹکنا پڑا اور بینظیر بھٹو کو لیاقت باغ جلسے کے بعد لقمہ اجل بننا پڑا۔ ان تمام تر کڑوے حقائق کے باوجود ہماری سیاسی قیادت نے اِس دروازے کو بند نہیں کیا جس سے گزر کر تختہ دار یا جیل کی سلاخوں تک پہنچا جاتا ہے۔ جب تک سیاسی قیادت اِس عناد بھرے کھیل سے توبہ نہیں کرے گی تب تک ایسا ظلم ہوتا رہے گا۔

جواب دیں

Back to top button