ورلڈ بینک کے چشم کشا انکشافات !

عام پاکستانیوں کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے ایما پر وفاقی حکومت عوام پر گرانی کا بم گراتی ہے، اشیائے ضروریہ غرضیکہ عام متوسط پاکستانی کے استعمال کی ہر چیز انہی اداروں کے ایما پر مہنگی کی جاتی ہے، بجلی، گیس اور پٹرول وغیرہ پر ٹیکسوں کا نفاذ بھی یہی ادارے کراتے ہیں لہٰذا اِن کے متعلق عامۃ الناس کی منفی رائے قائم ہونا فطری عمل ہے مگر یہ ہے تصویر کا دوسرا رُخ، تصویر کا پہلا رُخ، یہی ادارے وفاقی حکومت سے کہتے ہیں کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دیں یعنی جو شعبے یا لوگ ٹیکس نہیں دیتے اِن سے ٹیکس وصول کریں، چونکہ مالیاتی ادارے ایسا کرنے کے لئے اُنہی کو کہتے ہیں جو ایوان میں بیٹھے ہیں یا انہوں نے ازخود اِس پر عمل درآمد کرانا ہے لہٰذا وہ خود کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بجائے عوام پر چھری چلادیتے ہیں، رواں سال تیسری بار عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے کہاگیا ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دیں مگر عام یعنی متوسط طبقے پر رحم کریں مگر مسئلہ پھر یہی ہے کہ عوام کے سوا طاقت ور طبقے پر چھری چلائے کون؟ خبر ہے کہ ورلڈ بینک نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کادس فیصد غریب ترین طبقہ دس فیصد امیرترین طبقے سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے جبکہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں افریقی ممالک کے ہم پلہ ہیں،یعنی ٹیکس کی ادائیگی کے معاملے میں دو وقت کی روٹی کی جستجو کے لئے دن رات ایک کرنے والا پاکستانی اور دس فیصد وہ پاکستانی جن کے پاس ملک کی نصف کے لگ بھگ دولت ہے ایک برابر ہیں، یعنی جتنا ٹیکس غریب پاکستانی دے رہے ہیں اتنا ہی ارب اور کھرب پتی پاکستانی دے رہے ہیں۔ ورلڈ بینک نے تعیم اور صحت کے معیار کو افریقی ممالک کے معیار کے برابر قرار دیا ہے بلاشبہ یہ بھی دعویٰ درست ہے مگر اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ غریب جب بھی بیمار ہوگا وہ سرکاری ہسپتال اور امیر جب بھی بیمار ہوگا وہ بیرون ملک علاج کرائے گا یہی نہیں عام پاکستانیوں کی بھوک و افلاس کے کرب میں نام نہاد مبتلا سیاست دان، وزرا اور بیوروکریٹس بھی اپنے علاج کے لئے بیرون ملک جاتے ہیں، جن کا نام لینا ،’’ آ بیل مجھے مار‘‘کے مصداق مگر ممنوع ہے۔ ایک اور خبر ہے کہ آئی ایم ایف نے حکومت کو بجلی مزید مہنگی کرنے سے منع کردیا مگر ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کا مطالبہ کیا ہے، مگر ہمیں یقین ہے کہ ٹیکس نیٹ اُتنا ہی رہے گا البتہ آمدن بڑھانے کے لئے عام پاکستانی کے استعمال کی اشیائے ضروریہ مہنگی کردی جائیں گی۔ ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ وہ ملک جو1990 تک خطے میں فی کس آمدنی کے لحاظ اوپر سے دوسرے نمبر پر ہوا کرتا تھا وہ اب نیچے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ سرمایہ کاری کی مجموعی فضا بہتر بنانے کے لئے کہاگیا ہے مگر یہ شرط یا مطالبہ ناقابل عمل ہے، اگر ملک میں سیاسی استحکام اور رواداری ہوتی، ایک دوسرے کے مینڈیٹ تسلیم کئے جاتے، غیر جمہوری قوتوں کی بجائے جمہوری قوتوں سے ڈائیلاگ کئے جاتے تو سیاسی ماحول بھی سازگار ہوتا، کاروبار بھی چلتے، اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی ہمارے یہاں سرمایہ کاری کے لئے آتے، مگر نہ سیاسی استحکام ہے، نہ ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو آئینی و قانونی تحفظ حاصل ہے لہٰذا معجزے کے منتظر ہیں کہ پھر بھی غیر ملکی سرمایہ کار ہمارے یہاں سرمایہ کاری کریں۔ ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی مالیاتی ادارے کبھی یہ نہیں کہتے کہ دو وقت کی روٹی کے محتاج عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادیں بلکہ وہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی بات کرتے ہیں تاکہ جو طاقت ور اشرافیہ ٹیکس چوری کے تمام ہنر جانتا ہے اور جو اتنا طاقت ور ہے کہ آج تک اِسے ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاسکا اُس کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، مگر اِس طرف ہمارے منتخب نمائندے ، ہمارے قائدین نہیں آتے کیونکہ اِن میں خود بھی وہ شمار ہوتے ہیں جن کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اب پھر ورلڈ بینک نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار کےلئے ٹیکس سلیب کے فرق میں تخفیف کرے مگر یہ مشکل کام کرے گا کون؟ وہ بیوروکریسی جن کی تنخواہیں اراکین اسمبلی بلکہ وزیراعظم یا صدر یا آئینی اداروں کے سربراہان سے کئی گنا زیادہ ہیں وہ کبھی اپنی آمدن پر کٹ لگنے دیں گے اور نہ ہی ٹیکس دے کر قانون کے دائرے میں آئیں گے، پس عالمی اداروں کی ہر شرط اور مطالبے کے بعد عامۃ الناس کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ ملبہ عام پاکستانیوں پر ہی گرے گا کیونکہ متوسط طبقہ نہ تو آواز اٹھاسکتا ہے اور نہ ہی احتجاج کے لئے اپنی دیہاڑی توڑ سکتا ہے، اگر جرأت کربھی لے تو جو عالمی اداروں کی نہیں سنتے وہ ایک نہتے متوسط پاکستانی کی کیا سنیں گے؟ یہ بڑی افسوس ناک تفریق ہے جو روز بروز بڑھتی جارہی ہے، ہمارے سامنے پڑوسی ملک کی مثال ہے، اکثر دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ وہاں انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ والے وزیراعلیٰ یا وزرا کے گھر تلاشی لینے پہنچ جاتے ہیں اور اُن کو منع کرنے کے لئے کسی کا دبائو بھی کام نہیں آتا ، چونکہ ہمارے یہاں غریب کا حق مارنا باعث شرم نہیں اِس لئے ارباب اختیار کے لئے شرمندگی کی کوئی بات نہیں۔