خدارارشتوں کی قدرکیجیے

تحسین بخاری
کینسرسے لڑتے لڑتے بالآخر میری ہمشیرہ زندگی کی بازی ہارگئیں اورہمیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑکر ایک ایسے دیس میں جابسیں جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آسکا۔جس دن سے وہ بچھڑی ہیں اس دن سے طبیعت بوجھل اور دل اُداس ہے۔آج محسوس ہواکہ رشتوں کی کیااہمیت ہوتی ہے۔زندگی میں جس طرح سےہمیں رشتوں کی قدرکرنی چاہیے ہم ویسے نہیں کرپاتے۔پھرجب یہ قیمتی رشتے ہم سے کھو جاتے ہیںہمیں تب احساس ہوتاہے اورسوچتے ہیں کاش ہم یہ کرسکتے وہ کرسکتے۔مگر پھر ہمارے پاس کف افسوس ملنے کے سواکچھ نہیں ہوتا۔میری بہنوں میں سے سب سے زیادہ دکھ اسی بہن نے سہے۔ بچپن میں یرقان کا مرض لاحق ہواتھا وہاں سے ریکورہوئیں تو ٹی بی کے مرض نے حملہ کیا۔ٹی بی کا کورس مکمل ہواتوپھرفالج کااٹیک ہوا۔فالج کے مرض سے جان چھوٹی تو کینسر نے حملہ کیاجو جان لیوا ثابت ہوا۔ہمشیرہ محترمہ کی عمر ففٹی پلس تھی اور وہ شروع سے ہی کافی نحیف تھیں۔اللہ نے اولادکی نعمت سے بھی محروم رکھا تھا۔ والدہ صاحبہ پچھلے چارسال سے فالج کی وجہ سے چلنے پھرنے سےقاصرہیں لہٰذاماں کی مکمل دیکھ بھال کی زمہ داری بھی اسی ہمشیرہ محترمہ نے سنبھال رکھی تھی اوروالدہ صاحبہ کی ایسی خدمت کی کہ بیٹی ہونے کاحق اداکردیا۔وہ جنت جو ماں کے قدموں تلے ہواکرتی ہے وہ اسی بہن نے جیت لی۔مگرپھراچانک ماں کی دیکھ بھال کرنے والی خودبسترمرگ پرجاپڑی اورخود کسی کی دیکھ بھال کی محتاج بن گئی توباقی تینوں بہنوں نے بہن ہونے کا ایسا حق اداکیاجس کی میں مثال نہیں دے سکتا۔ان بہنوں نے باری باری اپنی بہن کی دیکھ بھال کی ڈیوٹی سنبھال لی، اپنا گھربار چھوڑ دیا۔ اپنے بچوں کی پرواہ چھوڑدی اور اپنی بہن کو ایک سیکنڈ کیلئے بھی تنہانہ چھوڑا۔انسان زندگی میں اپنے کسی رشتے کیلئے جس قدرپیارمحبت اورخدمت کاجذبہ رکھتاہے اسے اس کا نعم البدل ضرورملتاہے۔ہمشیرہ نے ماں کی خدمت کی اس لیے جب اسے خود کو نگہداشت کو ضرورت پڑی توبہنیں اس کی خدمت میں سرجوڑکربیٹھ گئیں۔کینسر نے چارپانچ ماہ کے اندراندرہی اس کی جان لے لی گلے میں چھوٹی سی رسولی بنی ،چیک کرایاتوپتہ چلاکہ کینسرہے اور ہے بھی آخری سٹیج پر۔شیخ زیدہسپتال رحیم یارخان کے کینسروارڈ سے علاج کرواتے رہے ڈاکٹر ساجد غفور نے پہلے ہی بتادیاتھاکہ کینسرآخری سٹیج پرہے اب یہ ریکورنہیںہوسکتاتاہم کیموتھراپی کے بعدوہ اس قدر کمزور ہوگئیں کہ بسترسے سہارے کے ساتھ بھی نہیں اٹھ سکتی تھیں جسم اتنا دردکرتاتھاکہ ہم کروٹ بھی تبدیل نہیں کرواپاتے تھے۔وہ سارادن اورساری رات ایک ہی سائیڈپرپڑی رہتی تھیں۔تمام ترعلاج گھرپرہی کرواتے رہے مگرکوئی افاقہ نہ ہوا۔میں چاہتا تھاملتان لے جاؤں ۔ہمارے محترم دوست بزیرکٹپال صاحب نے بھی مشورہ دیامگروہ توبیچاری اپنے بسترسے ایک انچ تک ہلنے کے قابل نہیں تھیں۔ اللہ پاک بھی انسان سے کیسے کیسے امتحان لیتاہے۔ شیخ زیدہسپتال رحیم یارخان کے ڈاکٹروں نے ہمشیرہ کے علاج میں بہت معاونت کی جن کا میں ہمیشہ مشکوررہوں گا۔خاص طورپرپرنسپل ڈاکٹر سلیم لغاری کے بہترین تعاون کو کبھی فراموش نہیں کرپاؤں گا جوپل پل مجھ سے رابطے میں رہے اورہرممکن تعاون کیا۔سرجیکل سیکشن کے ڈاکٹر محمدعباس، ایمرجنسی سیکشن کے ڈی ایم ایس ڈاکٹر ارسلان اور کینسرسیکشن کے ڈاکٹر ساجد غفورنے مسیحا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہمدردانسان ہونے کا ثبوت دیا۔ان کے علاوہ میرے محلے میں قائم الشفاہسپتال کے ڈاکٹر ستاربابرسے میں نے ہمشیرہ کوڈرپس وغیرہ لگوانے کیلئے جب اورجس وقت رابطہ کیاتووہ فوراًاپناسٹاف میرےساتھ بھیج دیتے کیونکہ جب ہمشیرہ ہسپتال جانے کی پوزیشن میں نہیں تھیں توانہیں گھرپرہی ڈرپس لگائی جاتی تھیں۔مشکل وقت میں ہرکردارکھل کرسامنے آجاتاہے کہ کس نے مشکل وقت میں کیا کردارادا کیا۔میرے بھائیوں جیسے دوست ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن شہنشاہ خان چانڈیہ میری اس پریشانی میں برابرکے شریک رہے اور روزانہ فون کرکے خیرخیریت پوچھتے۔میاں سومی بھی ہمشیرہ کی بیماری کےدوران مکمل رابطے رہے اورحوصلہ بڑھاتے رہے۔ہمشیرہ نے زندگی کے آخری ایام بہت تکلیف میں گزارے اور انکے وہ ایام شایدمیں کبھی بھی نہ بھول پاؤں۔بس بے بسی کے عالم میں انکی شدت بھری تکلیف کو دیکھتے رہنے کے سواکچھ کربھی نہ سکتے تھے ۔ہم اتنے بے بس ہوچکے تھے کہ آخری ایام میں ہم انکو ہسپتال تک بھی نہیں لے جا سکتے تھے کیونکہ تکلیف کا یہ عالم تھاکہ ہم انکوچھوتے تھے توانکاجسم شدیددردکرتاتھا۔انسان کتنا بے بس ہے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو تڑپتادیکھ رہا ہوتا ہے اور کچھ کربھی نہیں سکتا۔اللہ سے روروکردعائیں مانگیں کہ میرامالک تورحیم وکریم ہے زندگی تیری امانت ہے جب چاہے لے لے پر اتنی تکلیف تونہ دے۔مگراللہ پاک بھی انسان سے کیاکیاامتحان لیتا ہے۔ اس کے اپنےرازہوتے ہیں اس نے اپنا پراسس مکمل کرنا ہوتاے وہ بہتر سمجھتاہے ۔انسان کیاکرسکتاہے۔تاہم ہمشیرہ کی تکلیف بھرے لمحات دل پر ایسادردچھوڑگئے جس میں اثرات شاید کبھی بھی ختم نہ ہوسکیں۔19نومبراتواراور سوموارکی درمیانی شب ساڑھے آٹھ بجے جب میں اپنے روزمرہ کے امورسے فارغ ہوکرگھرحبیب کالونی رحیم یارخان واپس آیااور حسب معمول والدہ اور ہمشیرہ کے کمرے میں گیا۔والدہ کی خیرخیرت پوچھی اورپھر ہمشیرہ کی ساتھ والی چارپائی پربیٹھ گیا انکے منہ سے کپڑا ہٹاکر دیکھا تو انکی سانسیں آخری ہچکیاں لے رہی تھیں میں سمجھ گیاکہ اب انکی آخری گھڑی آن پہنچی ہے لہٰذامجھ سے برداشت نہ ہواتومیں اپنے کمرے میں چلاگیا۔ میں اپنے جذبات پرقابونارکھ سکااورمیں رونے لگا۔ مجھے دیکھ کرمیرے بچے اورباقی گھروالے بھی رونا شروع ہوگئے اورپھر اسکے پانچ منٹ بھی ہی انکی روح پرواز کرگئی اورپھرہم ہمشیرہ کاجسدخاکی لیکراپنے گاؤں حویلی غوث شاہ چلے گئے۔ہمشیرہ کوگاؤں کی مٹی حوالے کیا۔ایک ہفتہ وہاں ٹھہرے اورپھربوجھل دل کے ساتھ واپس آگئے۔بس یہی کہوں گاکہ ہمیں اپنے رشتوں کو سنبھال کررکھنا چاہیے۔انکی قدرکرنی چاہیے جب یہی رشتے کھوجاتے ہیں توپھربعدمیں انکی اہمیت کا پتہ چلتاھے اورپھربعدمیں پچھتانے اورھاتھ ملنے کا کوئ فائدہ نہیں۔جتنا ہوسکے محبتیں بانٹیں۔اپنے ان قیمتی رشتوں کواورکچھ دے پائیں یانہ دیں مگر انہیں وقت ضروردیں انکے دکھ بانٹیں۔ وقت سب سے انمول تحفہ ہے انکے ساتھ مل بیٹھیں۔ان پھول سے نازک رشتوں کو دینے کیلئے سب سے بہترین چیز جوہے وہ آپکاوقت ھےخاص کر کسی بھی مریض کوآپ کے وقت کی دوائی سے زیادہ ضرورت ھوتی ہے وہ آپ سے بات کرنے دکھ بانٹنے کوترستے ہیں لہٰذاانکے ساتھ ضرورمل بیٹھاکریں۔ ماں باپ کے بعد سب سے نفیس جورشتہ ھے وہ بہنوں کا ہے ۔بہنوں کا دل ھروقت اپنے بھائیوں کیلئے دھڑکتاہے ۔اپنی اولاد سے بڑھ کربہنیں اپنے بھائیوں سے پیارکرتی ہیں۔ بھائیوں پرنازکرتی ہیں۔بھائی زراسابہن کو جھڑک دیں یابے رخی اختیارکریں توبہن پر بھائی کا یہ سردرویہ پہاڑبن کرٹوٹتاھے اس لئے میں ھربھائی سے دست بستہ التجاکروں گاکہ خدارااپنی بہنوں کاکبھی بھی دل نہ دکھائیں۔انہیں اپنے بچوں کی طرح پیاردیاکریں۔بہن کے دل سے بھائی کیلئے جودعانکلتی وہ عرش تک جاتی ھے بہن ماں کادوسراروپ ہوتی ہے۔ خاص طورپرعیدکے موقع پربہنوں کے پاس ضرورجایاکریں کیونکہ انکی عیدتب تک نہیں ھوتی جب تک وہ بھائی کی ایک جھلک نہ دیکھ لیں۔ عید کے روزبہن کی نظریں دروازے پرلگی ہوتی ہیں کہ اسکابھائ کب آئے گا۔سسرال سے بھلے اسے کسی چیزکی کمی ناہو مگر اسے ساراسال یادوہی بھائی کے دیے چندسوروہے اورچھوٹاساگفٹ رہتاھے اوروہ بڑے فخرسے اپنی سہلیوں کوبتاتی ہے کہ اسکا بھائی آیاتھااوراسے عیدی دے کرگیاتھا۔ دعاہے کہ اللہ ہم سب کو اپنی بہنوں سمیت ھررشتے کی قدرکرنے کی توفیق عطافرمائے۔