طرز سیاست بدلنے کی ضرورت !

فروری میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل بڑے سیاسی رہنمائوں کی نظر عدالتوں میں زیر سماعت کیسوں پر ہے، بلاشبہ خلاف توقع فیصلہ آنے کی صورت میں عام انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش دھری کی دھری رہ سکتی ہے۔ میاں محمد نوازشریف،آصف علی زرداری، عمران خان، میاں شہباز شریف، سید یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی سمیت قومی سطح کی متعدد شخصیات کے کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اِس لئے بلاشبہ وہ تمام سیاسی شخصیات عدالتوں کے رحم و کرم پر ہیں جن کے کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں لیکن وہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے بے چین ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہ تمام کیسز خود ہی ان شخصیات نے ایک دوسرے کے خلاف درج کرائے ہیں یوں سبھی ایک دوسرے کے بچھائے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ میاں محمد نوازشریف نے سیالکوٹ کے ورکرز کنونشن میں فرمایا تھا کہ میں صبح وزیراعظم تھا مگر رات کو ہائی جیکر بنادیاگیا بلاشبہ ایسا ہی ہوا تھا مگر اِس معاملے سے ذرا ہٹ کر سوچا جائے کہ کیا سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف سیاسی انتقام نہیں لیتے؟ ہمارے یہاں انتخابات کے دن کو ہی جمہوری عمل سمجھا جاتا ہے مگر جمہوری رویے اور جمہوریت کے ثمرات سے نا آشنائی یا پھر لاتعلقی جمہوریت کو فالج زدہ بنادیتی ہے۔ ایک طرف تو انتخابات میں ہارنے والے انتخابی عمل کو متنازعہ بناکر سڑکوں پر نکلے آتے ہیں یوں ملک میں سیاسی عدم استحکام کا آغاز ہوجاتا ہے تو دوسری طرف صاحب اقتدار بھی جواباً سچے جھوٹے کیس دائر کرواکے اپنا غصہ ٹھنڈا کرتے ہیں تاکہ سیاسی مخالفین کا زیادہ وقت عدالتوں میں پیشی کے لئے ہی صرف ہو اور وہ حکومتی معاملات میں کم سے کم رکاوٹ ڈال سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ہو نہ ہو سیاسی مخالفین کے خلاف حفظ ماتقدم کے طور پر ملک کے کونے کونے میں کیس درج کرادیئے جاتے ہیں جس کا واحد مقصد سیاسی مخالفین کو تھکادینے والی سزا کے سوا کچھ نہیں ہوتا مگر بسا اوقات زیادہ غصے میں ایسے کیس بھی درج کرادیئے جاتے ہیں جن کی سزا عمر قید یا پھر سزائے موت بھی ہوسکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ مخالفین کو جیل کی کوٹھڑیوں میں بند کریں گے، ایساانتخابی منشور میں کیوں نہیں لکھا ہوتا حالانکہ یہی وہ کام ہوتا ہے جو منشور کے نکات سے زیادہ کیاجاتا ہے بلکہ منشور تو بظاہر اِس مقصد کے لئے معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار چھن جانے کے بعد عوام کو دکھایا جائے کہ ہم نے یہ سب کرنا تھا مگر ہمیں کرنے نہیں دیا گیا۔ دراصل سیاسی قیادت میں ایک دوسرے کے لئے عدم برداشت ہمارے یہاں غیر معمولی طور پر بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو بلاول بھٹو کو اُنگلی تھمائے اور بختاور بی بی کو گود میں اٹھائے آصف علی زرداری کو ملنے کے لئے جیل جایا کرتی تھیں۔ پھر ہم نے میاں محمد نوازشریف کو جیل سلاخوں کے پیچھے بھی دیکھا ہے۔ غرضیکہ گھروں کی دیواریں مسمار ہوئیں، سیاست سے لاتعلق اہل خانہ بالخصوص عفت مآب خواتین کے ساتھ مرد اہلکاروں نے بدسلوکی کی۔ ایسے افسوس ناک واقعات کی فہرست بہت طویل ہے مگر افسوس کہ سیاسی قیادت شاید اسی کو جمہوری حُسن سمجھتی ہے اور ملک و قوم کو درپیش سنگین ترین مسائل اور عوام کی خدمت ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ قومی اسمبلی میں سابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے اپنے آخری خطاب میں اسی طرز سیاست کی نشاندہی کرتے ہوئے میاں محمد نوازشریف اور آصف علی زرداری سے کہا تھا کہ ہمارے لئے یہ طرز سیاست مت چھوڑیں یہ وہی بات ہے جو ہم بھی گذارش کررہے ہیں کہ کم و بیش تمام قومی سطح کے سیاسی رہنما اِس وقت عدالتوں کے رحم و کرم پر ہیں، کسی کے خلاف کیس روسی صدر پوتن یا بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے درج نہیں کرایا، یہ سبھی کیس انہی شخصیات کے ادوار میں ایک دوسرے کے خلاف درج ہوتے رہے ہیں ، لہٰذا سوچئے کہ ملک و قوم کی بہترین خدمت کرکے بار بار انتخابات جیتنا زیادہ اچھا عمل ہے یا سیاسی مخالفین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر سیاسی ماحول کو خراب ، انتخابات کو متنازع ، جانبدارانہ بناکر بناکر انتخابات جیتنا زیادہ بہتر ہے۔