تعلیم حکومتی سرپرستی سے محروم کیوں؟
ملیحہ سید
ہماری حکومتوں کے پاس ہر عیاشی اور دکھاوے کیلئے پیسہ ہے مگر عوامی فلاح و بہبود اور اپنی مقررہ آئینی کردار کی ادائیگی کیلئے نہ سنجیدہ افراد موجود ہیں اور نہ ہی سرمایہ جبکہ پاکستانی آئین میں اٹھارویں ترمیم 8 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی پاکستان نے پاس کی گئی اور جس کے تحت آرٹیکل 25 الف کا اضافہ کر کے 5 سے 16 برس کی عمر تک تعلیم کی لازمی اور مفت فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ مگر عملی طور پر صوبائی حکومتوں کی جانب سے جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ سرکاری سکولوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور طالب علموں کی مشکلات میں ہر گزرتے دن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ کہیں کتابیں وقت پر نہیں ملتیں تو کبھی بچوں کے داخلے بجھواتے ہوئے انہیں تنگ کیا جاتا ہے اور سکول انتظامیہ اپنی نااہلی کی قیمت بھی بچوں کے گھر والوں سے وصول کرتی ہے۔ اب ایک متوسط طبقے سے بھی نچلے طبقے کا بچہٖ و بچی کیسے ان کے ان بہانوں کا ہرجانہ ادا کرے گا؟ آجکل نویں اور دسویں جماعت کے داخلے جا رہے ہیں اور سرکاری سکولوں کی انتظامیہ اس حوالے سے مکمل لاپرواہی کا مظاہرہ کرنے کے بعد بچوں سے وصولی کرنے میں مصروف ہے ۔ جن کے پاس ہے وہ تو دے رہے ہیں کہ بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محروم طبقات کہاں جائیں ؟ جو سرکاری سکولوں میں مفت تعلیم کی آپشن سے فائدہ اٹھا کر اپنے بچوں کو کم از کم بنیادی تعلیم سے تو آراستہ کر سکتے تھے مگر جیسے حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو سکولوں سے اٹھا رہے ہیں وجہ حکومتی سطح پر اپنی آئینی زمہ داری سے روگردانی کرتے ہیںفری ایجوکیشن سے ہاتھ اٹھانا ہے۔ بنیادی طور پر غریب اور محنت کش طبقے کیلئے سرکاری سکول کے علاؤہ اور کوئی آپشن نہیں ہے کہ جہاں سے وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکیں۔ سرکاری طلباء و طالبات کی اکثریت ان گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے جہاں بمشکل روٹی، بجلی اور گھر کے کرایوں کے بھاری اخراجات کے بعد کچھ بچتا ہو۔ پاکستان میں پہلے ہی لگ بھگ تین کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں اور ابتدائی تعلیم سے محروم ہیں اور سرکاری تعلیمی اداروں کی یہ حرکتیں انکی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔
محکمہ تعلیم کی سکولوں کے حوالے سے جاری اپنی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیاہے کہ پنجاب بھر میں گذشتہ پانچ برسوں کے دوران لڑکوں کے 665 سرکاری سکول بند ہوئے ہیں ۔ یعنی کہ پہلے سے محروم طبقات کی مجموعی محرومیوں میں مزید کا اضافہ ۔ رپورٹ کے مطابق لڑکوں کے سکولوں کی تعداد 23 ہزار 392 سے کم ہو کر 22 ہزار 727 رہ گئی ہے ۔ مذکورہ سکولوں میں سے کچھ پرائیوٹائز اور باقی پیف اور پیمہ کے حوالے کر دئیے گئے ہیں ۔ لڑکیوں کے سکولوں میں پانچ برسوں کے دوران 740 کا اضافہ ہوا ہے اور تعداد 24 ہزار سے بڑھ کر 25 ہزار 513 پر پہنچ گئی ہے ۔ مجموعی طور پر اس وقت صوبہ پنجاب میں قریباً 47700 سکول سرکاری طور پر ورکنگ میں ہیں اور پنجاب کے سرکاری سکولوں کے تین لاکھ سے زائد اساتذہ پڑھاتے ہیں۔ فیسوں کے معاملات کے حوالے سے ایک اور رپورٹ کے مطابق پنجاب بھر کے سرکاری سکولوں میں بچوں کی انرولمنٹ میں زبردست کمی ہو گئی ہے اور قریباً ایک لاکھ چالیس ہزار بچے سکول چھوڑ گئے۔ سب سے زیادہ بچے رحیم یار خان میں سکول چھوڑ گئے۔رحیم یار خان میں 27 ہزار ،ڈی جی خان میں9 ہزار بچوں نے سکول چھوڑ دیا جبکہ 4 ہزار بچےلودھرا ں سے سکول چھوڑ گئے۔محکمہ تعلیم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور کے سکولوں میں بھی انرولمنٹ 24 ہزار کم ہوئی۔ 11 ہزار بچے جھنگ سے سکول چھوڑ گئے۔ راولپنڈی سے 7 ہزار اورفیصل آباد سے 9 ہزار بچے سکول چھوڑ گئے جبکہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے 4 ہزار اوربھکر سے 3 ہزار بچے سکول چھوڑ گئے۔ چکوال ، ملتان اور مظفر گڑھ سے چھ ،چھ ہزار بچے سکول چھوڑ گئے۔ سرگودھا، وہاڑی سے بھی تین تین ہزار بچے سکول چھوڑگئے،سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے انرولمنٹ پوری کرنے کیلئے تمام اتھارٹیز کو ہدایات جاری کردیں۔رواں سال 5 لاکھ 35 ہزار نئے بچوں کے داخلوں کا ہدف دیا گیا تھا جو پورا نہیں ہو پا رہا۔ غیر معیاری نظام تعلیم ، رویوں کے علاؤہ مہنگائی اور تعلیم کے بڑھتے ہوئے اخراجات نے والدین کو بھی مایوسی کا شکار کر دیا ہے اور والدین نے بچوں کو سکول سے اٹھا لیا ہے ۔سکولوں میں فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث انرولمنٹ اور اساتذہ کی کمی ہونے کے ساتھ ساتھ پنجاب بھر کے ہزاروں سرکاری سکولوں میں ہیڈ ماسٹرز کی نشستیں خالی ہیں۔ ذمہ داریوں میں اضافے کے باعث سینکڑوں اساتذہ نے ہیڈ ماسٹر تعینات ہونے سے معذرت کر لی تھی۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہماری سرکاری سکول اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہیں جن میں اگر کچھ حکومتی پالیسیاں ہیں تو وہیں سکول کے اپنے عملے کا بھی غیر زمہ دارانہ رویہ شامل ہے ۔ آج کے اساتذہ بھی اپنے زمہ داریاں اٹھانے سے پہلو تہی برتتے ہیں ورنہ زمیں نے بھی سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کی ہے اور مجھ سمیت میرے کئی کلاس فیلو اور دوست جو سرکاری سکولوں سے تعلیم حاصل کی۔کتنے ہی ہیں جو سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ہم پھر کہتے ہیں کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی زبوں حالی کے باوجود انہیں اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات محنت و مشقت کی چکی میں پسنے کے بعد ملک کو قوم کا نام روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بات واضح ثبوت ہے کہ اگر پاکستانی بچوں کو بہترین قیادت اور بہترین تعلیمی ماحول مہیا کیا جائے تو وہ اپنی محنت اور ذہانت سے وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کتنے ہی غریب گھرانوں کے بچے بچیاں ہیں جو غربت و تنگدستی کے باوجود ، سرکاری اداروں کی زبوں حالی اور ناکافی سہولیات کے باوجود اپنی اور اساتذہ کی محنت سے زندگی میں آگے بڑھنے اور نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ لہٰذا نگران حکومت ہو یا الیکشن کے بعد آنے والی نئی حکومت ، ان سے گزارش ہے کہ اس مسئلے کا دیرپا اور مناسب حل نکالے۔ سرکاری اداروں کی نجکاری کے بجائے محکمہ تعلیم کے سالانہ بجٹ میں سو گنا اضافہ کیا جائے۔ اساتذہ کی بھرتی کی جائے اور زمہ داریوں کو تعین کیا جائے ۔تعلیمی نصاب سے لے کر سکول کی عمارتوں پر پیسہ خرچ کیا جائے۔ تعلیم کو اولین ترجیح دیتے ہوئے کتابیں اور یونیفارم مہیا کیے جائیں اور اپنی ہر قسم کی عیاشیوں ، ہر قسم کے میلے اور عیش و عشرت کی قربانی دے کر آنے والی نسلوں کا مستقبل سنوارنے پر توجہ دی جائے ورنہ تاریخ میں ہمارا نام ایک ناکام ریاست کے طور پر کیاجائے گا۔