ترکی اور ایران اسرائیلی وحشت کے خلاف متحدہ مؤقف اختیار کرے: ایردوآن

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی سے کہا وہ چاہتے ہیں کہ ترکی اور ایران فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی ’وحشت‘ کے خلاف ’متحدہ مؤقف‘ اختیار کریں۔
ترکی کے ڈائریکٹوریٹ آف کمیونیکیشن کے مطابق دونوں رہنماؤں نے فون پر بات کی اور کال کا مقصد "غزہ پر اسرائیل کے غیر قانونی حملوں، فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد کی کوششوں، اور خطے میں مستقل جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے بارے میں تبادلہ خیال کرنا تھا۔”
بیان میں کہا گیا، "کال کے دوران صدر ایردوآن نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کی بربریت کے خلاف متحد مؤقف اختیار کرتے ہوئے عالمِ اسلام بالخصوص ترکی اور ایران کی اہمیت کو اجاگر کیا۔”
ایردوآن نے "کہا کہ ایران اور ترکی عارضی جنگ بندی کو مستقل کرنے اور مستقل امن کے حصول کے لیے تعاون برقرار رکھیں گے۔”
سرکاری خبر رساں ایجنسی آئی آر این اے کے مطابق رئیسی نے فون کال کے دوران کہا: "امریکہ کو مداخلت کرنے اور غزہ کے عوام کے لیے کوئی فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں اور وہ اس سلسلے میں کوئی بھی اقدام ناکامی سے دوچار ہوگا۔”
انہوں نے مزید کہا: "غزہ کے عوام حماس کے ذریعے عوامی ووٹوں سے پیدا ہونے والی ایک جائز اور قانونی حکومت کے طور پر غزہ کے مستقبل کا فیصلہ کریں اور امریکیوں کو مداخلت اور غزہ کے عوام کے لیے فیصلے کرنے کا کوئی حق نہیں اور اس سلسلے میں کوئی بھی اقدام ناکامی سے دوچار ہو گا۔”
سات اکتوبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے ایردوآن نے اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کو "دہشت گرد ریاست” قرار دیا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی اناضول کے مطابق ایردوآن نے نومبر کے وسط میں کہا کہ ترکی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے گا کہ غزہ میں لوگوں کا "بے رحمی سے” قتلِ عام کرنے والے سیاسی اور فوجی رہنماؤں کو بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑے۔ "اگر اسرائیل نے اپنا قتلِ عام جاری رکھا تو اسے دنیا میں ہر جگہ ایک ‘عالمگیر طور پر قابلِ مذمت دہشت گرد ریاست’ کے طور پر دیکھا جائے گا۔”
دریں اثناء تہران نے اسرائیل کی حمایت میں امریکہ کے کردار پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔ رئیسی نے نومبر کے شروع میں کہا تھا: "غزہ میں جنگی مشین امریکہ کے ہاتھ میں ہے جو غزہ میں جنگ بندی کو روک رہا ہے اور جنگ کو بڑھا رہا ہے۔ دنیا کو امریکہ کا اصل چہرہ دیکھنا چاہیے۔”
"محورِ مزاحمت” کا حوالہ دیتے ہوئے رئیسی نے اس امکان سے بھی خبردار کیا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازعات دوسرے محاذوں تک پھیل سکتے ہیں۔ اس اصطلاح کو ایران شرقِ اوسط میں غیر ریاستی عناصر کے اتحاد کے لیے استعمال کرتا ہے جو مغربی اثر و رسوخ یعنی امریکہ اور اسرائیل کا مخالف ہے۔ اس محور میں ایران، شام، لبنان میں حزب اللہ ملیشیا اور فلسطین میں حماس شامل ہیں۔