آج کے کالمغلام مصطفی

اسرائیل اوربھارت عالمی دہشت گرد

غلام مصطفی

گزشتہ75 سال سے جس طرح فلسطینی مسلمان بچے، عورتیں، بزرگ اور نوجوان اسرائیلی دہشت گردی سے شدید متاثر ہورہے ہیں،اسی طرح مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلمان بھارتی ریاستی دہشت گردی سے نہ صرف شدید متاثرہیں بلکہ ان دونوں جگہوں پر مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے جسے روکنے والا کوئی نہیں، ہر ملک اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کررہاہے لیکن تاریخ گواہ ہے جو لوگ آج اس ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھارہے کل وہ خود بھی اس ظلم کاشکار ہوسکتے ہیں اور پھر جب ان کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھائے گا تب انہیں پتہ چلے گا ظلم کے خلاف خاموشی اختیار کرنے سے کتنا بڑا نقصان ہوتاہے۔ ویسے بھی حضرت امام حسین ؓ کا قول ہے کہ: ظلم کے خلاف جتنی جلدی اٹھوگے اتنی کم قربانیاں دینا پڑیں گی ۔
ویسے تو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ عالمی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیاہے، پاکستان نے اس دہشت گردی کیخلاف بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں، 75ہزار جانوں کا نذرانہ دیاہے، اس کے علاوہ150ارب ڈالرز سے زائد کا مالی نقصان اٹھایاہے جس کے باعث پاکستانی معیشت بدحالی کا شکار ہوئی اور پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا، معاشی طور پر غیر مستحکم پاکستان اپنے ملک میں مہنگائی کرنے پرمجبور ہے جس کے باعث غریب لوگوں کی زندگی اجیرن ہوچکی اور وہ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، یہ صورتحال پاکستان کے لئے انتہائی افسوسناک اور خطرناک بھی ہے، لوگوں کی قوت خرید جواب دے گئی ہے یہ ایک تشویشناک بات ہے۔
اگر دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان اپنا کردار ادا نہ کرتا تو شاید اس وقت دہشت گردی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ لے چکی ہوتی ، اگر آج یورپ سمیت پوری دنیا کسی حدتک دہشت گردی سے محفوظ ہیں تو اس کے پیچھے پاکستان کی لازوال قربانیاں ہیں، جنہیں نظرانداز نہیں کیاجاسکتاہے ۔
امریکہ نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر چڑھائی کی تو اس سے پاکستان شدید متاثر ہوا،جس کے منفی اثرات سے آج بھی پاکستان متاثر ہورہاہے اور نہ جانے کب تک ہوتا رہے گا۔ پاکستان نے امریکہ کابھرپور ساتھ دیا، اب وقت آگیاہے کہ امریکہ پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے نہ صرف پاکستانی ایکسپورٹرز کو اپنے ملک میں جگہ دے بلکہ پاکستان کی مالی مدد بھی کرے، آج کاباشعور پاکستانی کہتاہے کہ امریکہ سمیت پوری دنیا کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات رکھنے چاہئیں، اگر پاکستان رقبے اور آبادی اور معاشی طور پر دنیا کے کئی ممالک کے مقابلے میں چھوٹا اور کمزور ہے لیکن ایک بہادر اور پرعزم عوام کاملک ہے، پاکستان کی بہادر فوج آج بھی پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہی ہے ، پاکستانی فوج کے یہ شہداء ہماری حیات کا باعث بن رہے ہیں، ان شہداء کی بدولت پاکستانی محفو ظ ہیں، اگر آج پاکستان اپنے سے کئی گناہ بڑی طاقتو ر دشمن کے سامنے سینہ تانے کھڑا ہے تو اس کے پیچھے بھی پاک فوج کا نڈر اور جرأت مندانہ موقف ہی ہے کہ دشمن پاکستان کی جانب سے میلی آنکھ سے دیکھنے سے گھبرا رہاہے۔
پاکستان ایک ایٹمی قوت کاحامل ملک ہے، جسے اپنے تحفظ کا مکمل قانونی حق حاصل ہے اور پاکستان نے اپنے تحفظ کے لئے ہی ایٹم بم بنایاہے، حالانکہ پاکستان کے عزائم کسی بھی ملک پر حملہ کرنے کے نہیں ہیں لیکن اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو پھر پاکستان اپنے دفاع کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتاہے، دنیا کومسئلہ کشمیر اور مسئلہ حل کروانے کی ضرورت ہے ۔ مسئلے کشمیر کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی وقت نہ ختم ہونے والی جنگ چھڑ سکتی ہے جس کے بھیانک انجام سے شاید دنیا اس وقت غافل ہے، لیکن عنقریب دنیا کو یہ اندازہ ہوجائے گا کہ مسئلہ کشمیر صرف پاکستان اور بھارت یا اس خطے کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے، جس کا فوری حل انتہائی ضروری ہے اگرعالمی برادری اسی طرح اس حل طلب مسئلے پر آنکھیں بند کرکے بیٹھی رہی تو پھر وہ وقت بھی دور نہیں جب دنیا اس کے بھیانک انجام کو محسوس کرے گی۔
اس سے قبل کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تیسری عالمی جنگ کی شروعات ہو ، عالمی برادری فوری طور پر مسئلہ کشمیر کو حل کروادے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی وجوہات کو تلاش کیاجائے اور پھر اسے ختم کرنے کی کوشش کی جائے، اگر عالمی سامراجی اور بڑی قوتوں نے اپنی ظالمانہ پالیسیوںپر نظرثانی نہ کی تو پھر دہشت گردی کاخاتمہ ناممکن ہوجائے گا، آخر کب تک کوئی بھی ملک دہشت گردی کے خلاف لڑ سکتاہے؟ یہ ایک طویل جنگ ہے جس میں وہی قومیں فتح ونصرت حاصل کریں گی جو اپنے معاشروں میں انصاف قائم کرکے سب کیساتھ یکساں سلوک کرنے میں کامیاب ہونگی۔لہٰذا اس کی ابتدا کسی بڑے ملک سے ہونی چاہیے۔ یعنی اس وقت جو عالمی قوتیں ہیں سب سے پہلے وہ اپنے ملکوں سے اس کاآغاز کریں تاکہ معاشی اور عسکری لحاظ سے کمزور ممالک بھی اپنے ممالک کو درست کرنے میں ان کی پیروی کرسکیں۔جب تک عالمی برادری خود کو درست سمت گامزن نہیں کرلیتی اس وقت دہشت گردی اور دیگر جرائم کاخاتمہ ممکن نہیں۔
عالمی دہشت گردی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے پوری دنیا کوسرجوڑ کر بیٹھنے اور اتفاق رائے سے مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔گزشتہ کئی سال کی دہشت گردی نے نہ صرف اس خطے کو نقصان پہنچایا بلکہ پوری دنیا اس سے شدید متاثر ہوئی ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اب تک امریکہ جیسی بڑی طاقت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنے تحفظ کے لئے استعمال کیا ہے اگر امریکہ واقعی دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے دہشت گردی کی وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اس نے جان بوجھ کرایسا نہیں کیا بلکہ دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیاہے جس کے ذریعے امریکہ نے کئی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے، دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے امریکہ نے افغانستان میں جوجنگ آج سے 23 سال قبل شروع کی تھی وہ اب بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے اور شاید یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اس خطے میں امریکی مفادات باقی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کاجائزہ لیاجائے تو اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا ہے،کیونکہ پاکستان ایک کمزور معیشت کا ملک ہے جس کا نسب ونسق بیرونی قرضوں پر چل رہاہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں پسماندگی بہت زیادہ ہے، غربت اور افلاس کے باعث یہاں بہت سے مسائل پہلے ہی موجود ہیں، دوسری جانب عالمی کسادبازاری کے باعث بہت سے پاکستانی بیرونی ممالک جاب کیلئے جانا چاہتے ہیں، قریباً9لاکھ پاکستانی بیرونی ممالک جاب کے لئے جاچکے، جہاں انہیں بھی مشکلات کاسامنا ہے، پاکستان سمیت کوئی بھی ملک دہشت گردی کامتحمل نہیں ہوسکتا۔
دہشت گردی ایک عالمی خطرہ ہے جو کسی بھی خطے کو غیر مستحکم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔پاکستان کی پیشہ ورانہ افواج دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کوششیں کررہی ہے۔علاقائی استحکام میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ افواج پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مربوط ردعمل کی جو ضرورت اجاگر کی اس پر خطے کے ملکوں کو ہی نہیں عالمی طاقتوں بالخصوص اقوام متحدہ کو خصوصی توجہ دینی چاہئے کیونکہ کچھ عرصے سے ایک جانب بین الاقوامی سطح کے تنازعات نئی ہولناک جنگوں میں تبدیل ہورہے ہیں جس سے انسانی خاتمے کیلئے خطرات بڑھ رہے ہیں، دوسری جانب دہشت گردی کا جن پھر سے سر اٹھاتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستا ن نے درست کہاہے کہ دہشت گردی کسی ایک ملک یا ایک خطے کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ عالمی سطح پر بہت بھیانک مسئلہ بن چکاہے جسے حل کرنے کی اشدضرورت ہے، اگر آج دنیا دہشت گردی کی وجوہات کو سمجھ لے اور پھر اس کے خلاف اسی طرز پر کارروائیاں کی جائیں تو دنیا سے دہشت گردی کا قلعے قمع ہوسکتاہے، لیکن عالمی سامراجی قوتوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کواپنے مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کیاہے، جس کی وجہ سے دہشت گردی کم ہونے کے بجائے مزید اضافہ ہورہاہے۔ دہشت گردی اور دیگرجرائم دو الگ الگ چیزیں ہیں، جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
دہشت گردی ہر جگہ اور ہر قسم لوگوں کے خلاف ہوتی ہے دوسرا دہشت گردوں کا کوئی مذہب اور کوئی قوم نہیں ہوتی۔ معذرت کے ساتھ آج دنیا کے بیشتر ممالک میں جو آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، وہ آزادی کی تحریکیں صرف اس لئے چل رہی ہیں انہیں وہاں حقوق نہیں دیئے جارہے، ان سے جینے حق بھی چھین لیا گیاہے، لہٰذا وہ مجبوری میں اپنا دفاع کررہے ہیں جسے دہشت گردی کانام نہیں دیاجاسکتا، دہشت گردی ، تحریک آزادی اور جہاد تینوں الگ الگ چیزیں ہیںانہیں یکساں نہیں کیا جاسکتا، جو لوگ انہیں ایک ہی پہرائے میں دیکھتے ہیں وہ غلط ہیں، کیونکہ دہشت گردی ہر جگہ اور قسم کے لوگوں کے خلاف ہوتی ہے، اس میں کوئی مذہب، کوئی رنگ ونسل کا تعین نہیں ہوتاہے، بلکہ انسانیت کے خلاف نفرت اورگہری سازش ہوتی ہے جبکہ جہاد ہر قسم کے ظلم وستم اور برائیوں کے خلاف کیاجاتاہے، اسی طرح تحریک آزادی میں کی جانے والی جہدوجہد (چاہے وہ مسلح ہو یا غیر مسلح )وہ اپنے غضب شدہ حقوق حاصل کرنے کیلئے کی جاتی ہے لہٰذا اسے دہشت گردی سے جوڑنا انہیں حقوق سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا اس وقت دنیا بھر جہاں جہاں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں وہ اپنے حقوق حاصل کرنے کی چل رہی ہیں۔جہاد کی بات کی جائے تو جہاد بہت قسم کے ہوتے ہیں ، مسلح جہاد بھی ہوتا ہے اور غیر مسلح بھی ، اپنے نفس کے خلاف جہاد کو جہاد اکبر کہاگیاہے۔تعلیم ایک ایسا منفرد ہتھیار ہے جس کے ذریعے دہشت گردی ، باہمی دشمنیاں ، برائیاں اور معاشرے سے ناانصافیوں کاخاتمہ کیاجاسکتاہے۔ ایک باشعور معاشرہ ہی دنیا کی صحیح تکمیل کرسکتاہے ۔ جہالت کے خاتمے کیلئے تعلیم کو فری کرنے کی ضرورت ہے، پوری دنیا کے امیر ممالک اگر غریب ممالک میں ہر قسم کی تعلیم کو فری کرنے میں ان کا ساتھ دیں تو دہشت گردی سمیت ہر قسم کی برائیوں اورجرائم کاخاتمہ ہوسکتاہے۔
افواج پاکستان کے شہدا کی قربانیوں کا تمسخر اڑانے والے کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں۔اس قسم کی متکبر اور منافقانہ نظریہ کم سن ذہنوں میں زہرگھول کربدتہذیبی کوترویج دیتاہے جوبعدازاں کسی بڑے فساد کی شکل اختیارکرجاتاہے۔ ہمارا معاشرہ کس سمت جا رہا ہے؟ ایسے حالات میں ہمیں خود احتسابی کی شدید ضرورت ہے۔ بلوچستان اور کے پی کے میں ہونے والی دہشت گردی پاکستان کے خلاف گہری سازش ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔کسی بھی دہشت گردی یا پھر حادثے میں ہونے والی افواج پاکستان کی شہادتوں پر پاک فوج کیخلاف جو نفرت انگیز مہم چلائی جاتی ہے ہر باشعور پاکستانی اس مہم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتاہے۔ سوشل میڈیا پر تکلیف دہ او ر توہین آمیز مہم جوئی ناقابل قبول ہے ۔ایسے لوگ کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ یہ لوگ بیرونی ملک دشمن ایجنڈوںکے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں‘ خدارا ! ہماری نوجوان نسل کو ففتھ جنریشن وار کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کامقابلہ کرناچاہیے‘ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ملک ہے تو ہم ہیں اور فوج ہے تو تحفظ بھی ہے۔ یعنی ملک اور فوج دونوں لازم ہیں‘ان دونوں کاچولی دامن کاساتھ ہے‘ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف عوام ہی ملک کادفاع کرسکتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں کیونکہ کوئی بھی ملک فوج کے بغیر اپنا مکمل دفاع نہیں کرسکتا۔فوج کسی بھی ملک کیلئے ضروری ہے ، اپنی فوج پر بھروسہ نہ کرکے تباہ ہونے والی قوم عراق اس کی بہترین مثال ہے جس نے اپنی ہی فوج کے خلاف غیر ملکی فوجوں کا ساتھ دیاہے اور آج وہ پچھتارہے ہیں، لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ لہٰذا پاکستانیوں اپنے ملک اور فوج کی قدر کرو تاکہ ہمیں بھی دوسری قوموں کی طرح بعد میں پچھتانا ناں پڑے۔بیرونی ملک دشمن ایجنڈوں نے پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کیلئے ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ شروع کررکھی ہے۔دشمن نے پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر تنہا کرنے کیلئے پاک فوج کیخلاف جومہم شروع کررکھی ہے قوم اور فوج اس سے بخوبی واقف ہیں‘ ایسے عناصر کامقابلہ کرنے کیلئے بلکل تیار ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button