غیر جمہوری رویے جمہوری تسلسل میں رکاوٹ

وطن عزیز میں جمہوریت کا تسلسل بار بار ٹوٹنے کو سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نوازشریف نے ترقی اور خوش حالی میں بنیادی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ ویسے تو میاں نوازشریف پہلے بھی ملتے جلتے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن سیالکوٹ میں انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعات پر تفصیلی روشنی ڈالی لہٰذا اُن کی کہی ہوئی ہر بات قابل غور اور قابل فکر ہونے کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی۔ میاں محمد نوازشریف نے آپ بیتی بیان کی اور بلاشبہ ایسا ہی ہوا تھا مگر ایسا پہلی بار کسی وزیراعظم کے ساتھ نہیں ہوا، بار بار ایسے ہی حالات پیدا ہوئے جب منتخب وزیراعظم کو گھر جانا پڑا، افسوس کہ ایک وزیراعظم کو گھر بھیجنے کے لئے بعد میں وزیراعظم بننے والے نے کردار اداکیا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو بالآخر میثاق جمہوریت پر دستخط کرنا پڑے اور اِس میثاق کے متن میں یہی لکھا تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف غیرجمہوری قوتوں کا آلہ کار نہیں بنیں گے، مگر کیا اِس میثاق جمہوریت پر عمل ہوا، سیاست دانوں نے ایک دوسرے کے خلاف غیر جمہوری ہتھکنڈے اور رویے استعمال نہیں کئے اور غیر جمہوری قوتوں کی آشیرباد حاصل کرنے کی کوشش نہیںکی؟ لہٰذا ایک وزیراعظم اوراس کی اسمبلی کی آئینی مدت پوری نہیں ہوئی تو اِس کا ذمہ دار دوسرا وزیراعظم ہے، جس نے غیر جمہوری طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے لئے سہولت کار بنا۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو اورخود میاں نوازشریف کی حکومتوں نے کتنی کتنی بار اپنی آئینی مدت پوری کی اور اِن کی حکومت کیوں ختم کی گئی؟ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور کے مصداق جمہوری قوتیں ہمیشہ آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے احترام کی بات تو کرتی ہیں مگر جب بھی موقعہ ملتا ہے حصول اقتدار کے لئے یہ سب بھول کر غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ جڑ جاتی ہیں جو انتہائی افسوس ناک ہے۔ ہمارے نزدیک پاکستان میں جمہوریت کی کمزوری اور اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری نہ ہونے میں سیاسی قوتیں بھی برابر کی قصور وار ہیں جو حصول اقتدار کے لئے ’’ایک گناہ اور سہی‘‘ کے مصداق غیر جمہوری کام میں حصہ دار بن جاتی ہیں۔ ملکی تاریخ میں ایسی کونسی منتخب حکومت ہے جس کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا گیا ہو اور اِس کے خلاف سڑکوں پر نہ نکلے ہوں؟ حال کو ہی دیکھ لیجئے ابھی الیکشن کا شیڈول سامنے نہیں آیا لیکن قبل از انتخاب ہی انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کے لئے بیانات اور دعوے آنا شروع ہوگئے ہیں، جو بھی پارٹی برسراقتدار آئے گی اِس کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا جائے گا، ایک طرف ایوان میں دھواں دار تقاریر ہوں گی تو دوسری طرف ملک گیر تحریک کا آغاز ہوجائے گا یوں انتخابی عمل اور عوامی مینڈیٹ کو متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی، فلور کراسنگ اور اتحادیوں کی بلیک میلنگ جیسے معاملات جمہوریت کا حُسن نہیں بلکہ جمہوریت کے چہرے پر بدنما داغ ہیں مگر دل کو بہلانے کے لئے کہا جاتا ہے کہ بھلے لولی لنگڑی ہی سہی جمہوریت آمریت سے بہتر ہے، مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں اور اگلے انتخابات کے لئے اپنی خامیوں کو دور کریں اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے منشور بنائیں تاکہ اگلے انتخابات میں آپ پہلے سے بہتر مقابلے کی پوزیشن میں ہوں مگر ایساکرے گا کون؟ میاں نوازشریف صاحب کی باتیں صد فیصد درست ہیں مگر آلہ کار بننے والی بھی تو جمہوری قوتیں تھیں جو کبھی جمہوریت کی صحت کے لئے مفید ثابت نہیں ہوتیں، ایسے کتنے ہی بحران اور مشکلات ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لئے ملک میں سیاسی استحکام ناگزیر ہے مگر مجال ہے کہ جمہوری قوتیں اِس کام کے لئے متحد ہوں مگر جہاں مفاد مشترک ہوتا ہے سبھی اکٹھے ہوجاتے ہیں اور ثمرات سمیٹنے کے بعد پھر ایک دوسرے کے حریف بن جاتے ہیں، اب کہا جارہا ہے کہ اتحادی حکومت اس لئے کامیاب نہیں ہوئی کیونکہ آپس میں لڑائیاں اور اختلافات تھیں مگر دوران اقتدار کسی نے اِس امر کی نشاندہی نہیں۔ بہرکیف جمہوری قوتوں کو اپنی ادائوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اپنے جھنڈ میں رہیں اور صابر شاکر رہیں اسی میں اِن کی بقا ہے۔