ایڈیٹوریل

معیشت کیلئے اچھی خبریں

پائیدار اقتصادی بحالی اور غیر قانونی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لئے نگراں حکومت کے اقدامات کی مکمل حمایت کا فوج کا عہد قومی ترقی کے لئے ایک اہم عزم ہے، لہٰذا اِس کی بھرپور تائید و یکسوئی کے ساتھ حمایت کی جانی چاہیے۔ ایسے وقت میں جب متعدد محاذوں پر چیلنجز، ملک کو کمزور کر دیتے ہیں، یہ اتحاد اور تعاون قابل ذکر ہے، کیونکہ اس تعاون کے بغیر مختلف معاشی اصلاحات کا آغاز ممکن نہیں تھا۔ شرپسند عناصر کے خلاف کارروائیوں میں تیزی، ڈالر کی زخیرہ اندوزی، اشیائے خورونوش و اجناس کی سمگلنگ، بجلی چوری اور کئی ایک ایسے اقدامات ہیں جنہوں نے ہمیں گہرائی اور اندھیری کھائی میں گرنے سے بچایا ہے۔ خصوصاً سمگلنگ اور بجلی چوری جیسی غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاؤن قابل ذکر کارروائیاں ہیں، لیکن درحقیقت یہ کامیابیاں اسی لئے ممکن ہوئی ہیں کہ مختلف سویلین اداروں نے مشترکہ طور پر اِن کا سراغ لگایا اور بغیر رکاوٹ اور مصلحت قانون کے مطابق کارروائیاں کیں۔ لیکن انسداد دہشت گردی بڑا اور مشکل چیلنج ہے جس سے نمٹنا کسی سویلین ادارے کے بس کی بات نہیں لہٰذا پاک فوج ہی مشکل ترین کام کرسکتی ہے اور قریباً دو دہائیوں سے کر بھی رہی ہے۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی زیر صدارت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی اپیکس کمیٹی کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر، وزراء اور اعلیٰ سرکاری حکام نے شرکت کی۔ کمیٹی نے تعاون کی موجودہ سطح کا جائزہ لیتے ہوئے متفقہ طور پر دوست ممالک کے ساتھ رابطے کے لئے مختلف اقدامات کی منظوری دیتے ہوئے ان اقدامات کے تحت تصور کئے گئے مختلف منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد کی ہدایت کی اور آرمی چیف نے حکومت پاکستان کے معاشی اقدامات کی حمایت کے لئے پاک فوج کے غیر متزلزل عزم کی یقین دہانی کرائی۔اجلاس کو پاکستان اور کویت کے مابین سرمایہ کاری کے لئے سات مفاہمتی یادداشتوں کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی جن پر وزیر اعظم کے دورہ کویت کے دوران دستخط کئے جائیں گے۔ اسی طرح ایک اور انٹرویو میں قائم مقام وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بتایا ہے کہ جلد ہمارے ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔ اگر ہم باریک بینی سے جائزہ لیں تو حالیہ دو دہائیوں میں ہمیں دہشت گردی کی دنیا کی سب سے بڑی جنگ لڑنا پڑی اور اسی ہزار کے لگ بھگ قربانیوں کے بعد ہم فتح سے ہم کنار ہوئے مگر ابھی بھی ہمیں دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا ہے مگر دوسری طرف ہم جس معاشی بحران سے دو چار ہیں اِس کے ذمہ دار ہم خود ہیں، ہماری مصلحتیں، مفادات اور طمع نہیں ملک اور قوم کو معاشی لحاظ سے گہری کھائی میں دھکیلا ہوا ہے، اگرچہ دہشت گردی کی جنگ شروع ہونے سے پہلے وطن عزیز میں دودھ اور شہد کی نہریں رواں نہ تھیں اور نہ ہی بیرون ملک سے لوگ روزگار کے لئے پاکستان کا رخ کررہے تھے، مگر یہ حقیقت ہے کہ معاشی حالات اور عوام کی کسمپرسی بھی ایسی نہیں تھی، پے در پے غلطیوں نے ہمیں آج اِس نہج پر پہنچادیا ہے کہ ڈیفالٹ کا خطرہ ہمہ وقت منڈلا رہا تھا مگر نگران حکومت اور پاک فوج نے وہ تمام اقدامات کئے جن کی فوری ضرورت تھی لہٰذا باہمی تعاون کی کوششوں نے ہمیں آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنے کے قریب پہنچایا ہے، جس کی بہت فوری ضرورت تھی، وگرنہ ڈیفالٹ یقینی تھا ۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے لفظ’’دیوالیہ ‘‘ بکثرت سننے کو ملتا تھا لیکن درست اقدامات اور اصلاحات سے ہم معاشی پالیسیوں کے آئی ایم ایف کے کامیاب جائزے سے گزرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ چونکہ ملک عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے، معیشت کا نسبتاً مستحکم ہونا ایک اچھی علامت ہے،مگر جس مشکل دور سے ہم گزر رہے ہیں اور عوام مہنگائی و بے روزگاری کے شدید کرب کا سامنا کررہے ہیں، ایسے میں نئی آنے والی حکومت کے سامنے ہمہ وقت وہ حالات رہنے چاہئیں، جن سے ہم کم ازکم دو سال سے گزر رہے ہیں اور عوام کے مرجھائے ہوئے چہرے بھی کیونکہ تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کی وجہ سے اُن کے لئے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا ناممکن ہوچکا ہے، مرحوم طارق عزیز اکثر کہا تھا ’’دا غلطی گنجائش نِشتہ‘‘ لہٰذا نئی آنے والی حکومت یہ بات یاد رکھے کہ اب مزید غلطیوںکی گنجائش نہیں، عوام کو نچوڑنا اب ممکن نہیں ہے۔ ہمارے ملک بے شمار سنگین بحرانوں کا شکار ہے مگر کیا ہورہا ہے، اس کا اندازہ سینیٹ پاکستان میں پیش ہونے والی رپورٹ اور اِس پر ہونے والی گفتگو سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے سٹیٹ بینک کے ملازمین کی تنخواہوں کی تفصیلات سینیٹ میں پیش کیں جس پر سینیٹرز نے شدید تنقید کی اورہنگامہ کیا سینیٹررضاربانی نے کہاکہ ایک طرف آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں تو دوسری طرف اشرافیہ کی تنخواہ اور مراعات بے حساب بڑھائی جا رہی ہیں ، 164 ریٹائرڈ فوجی اور سول افسران باہربیٹھ کر ڈالرز میں پنشن لے رہے ہیں اس کا کیا جواز ہے، اگر بیوروکریسی کی تنخواہ کو کنٹرول نہ کیا گیا تو صوبوں سے مطالبہ کریں گے وہ ٹیکس اکٹھا کریں ،گریڈ ایک سے پندرہ تک کے سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ 14 ہزار روپے جبکہ ایم پی ون کا نو لاکھ سے 11 لاکھ تک کا ماہانہ بن رہا ہے، دنیش کماراورپلوشہ خان نے کہا یہ لوگ کونسےخاص کام کرتے ہیں کہ چالیس چالیس لاکھ روپے تنخواہ ہے، سینیٹر کی ماہانہ تنخواہ 1 لاکھ 60 ہزار ہے۔، وزیر خزانہ نے کہا کہ ایم پی سکیل کے تحت تنخواہ و مراعات میں 48 فیصد اضافہ وزیراعظم، کابینہ اور اسٹیبلشمنٹ کی منظوری کے بعد کیا گیا ایم پی اسکیل اس لئے لائے تھے کہ نجی شعبے سے پیشہ ور افراد کو لائیں جو سرکاری شعبے کی مدد کریں ،بینکنگ سیکٹر کی تنخواہیں بہت بڑھ چکی ہیں اس لئے ضروری تھا کہ سٹیٹ بینک ملازمین کی تنخواہیں بھی اچھی ہوں ۔ اِس مختصر گفتگو سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام جن حالات سے دوچار ہے، اِس کا ادراک نہیں کیا جارہا اور عوام سے اوپر افسر شاہی پر نوازشات کی بارش کی جارہی ہے، چند ماہ پہلے بجلی کے بلوں میں خوف ناک اضافے کا معاملہ سامنے آیا تو پتہ چلا کہ افسر شاہی کے دوران ملازمت اور بعد از ملازمت بجلی ، پٹرول ، گیس اور دیگر مراعات کے پیسے بھی بھوکے ، ننگے، دو وقت کی روٹی کے لئے محتاج پاکستانیوں کی جیب سے نکلوائے جارہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب غلطیاں چھوڑ دیں اب ان غلطیوں کی تلافی کریں عوام اور بیل میں فرق سمجھیں اور عوام پر مزید بوجھ نہ ڈالیں، ہم سینیٹر رضا ربانی کی اِس بات سے متفق ہیں کہ حکومت عوام کو کچل رہی ہے لہٰذا شاہ خرچیاں بند کریں ، ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ آپ اپنا طرز زندگی تبدیل کریں صرف اتنی گذارش ہے کہ افسر شاہی پر نوازشات کرکے اِس کا بوجھ عوام پر مت ڈالیں ۔ ہم پھر کہنا چاہیں گے کہ نگران حکومت نے پاک فوج کی مدد سے جس طرح مختلف مافیاز کو قابو کیا ہے، نو منتخب حکومت جس کو عوامی مینڈیٹ بھی حاصل ہوگا اِس کے لئے ایسے اقدامات کا تسلسل جاری رکھنا قطعی مشکل نہ ہوگا فقط نیک نیتی کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button