آج کے کالمساجدہ صدیق

اردو کی تازہ شاعرہ پروین شاکر

ساجدہ صدیق

ایک ایک لمحے کو شمار کرتی سانسیں۔وہ لمحے جو مجھے کبھی نصیب ہوئے ہی نہیں۔لا حاصل کے اس سلسلے نے مجھ کو تمہاری راہوں کا گھنا شجر بننے دیا ہی نہیں۔ میری سوچ نے تمہارے صحرا سے بچے کھچے نخلستاں بھی چھین لیے اور میرے بلیغ خیالوں نے تم کو چاہتوں کی سلطنت کا ایسا آسماں بنا دیا جس کو پار کرنے کی رفتار کسی طور میرے بس میں نہیں۔ میرے تخیل نے تمہیں ایک کامل ساحر بنا ڈالا۔ میری پرکھ کے حسن نے تمہارے چہرے کو تمام بشری چہروں سے معتبر کر دیا اور میری ذوق نشینی نے تم کو خدا کی ایسی تخلیق بنا ڈالا کہ جس کے سلیقہ ِ کاریگری پر خود خدا بھی چونک اٹھا ہے۔ میری کم نور آنکھوں نے تم یوں جانچا ہے کہ میرے یخ بستہ الفاظ کے چناؤ نے تمہاری سرد مہری کو بھی ڈھانپ لیا۔ میں نے تمہیں اپنی شاعری کے غلاف میں قوس و قزاح کے رنگوں میں بکھیر دیا کہ نظام قدرت تم جو اسود تصور کرنے لگا ۔ میری تاثیر ِگویائی نے تمہارے نام کو اسم ِ کامل بنا دیا کہ اب شہاب ِ ثاقب ہر لحظہ تمہیں پکارتے ہیں۔ میری بدو پلکوں نے میرے شہر کی گلیوں کی خاک کو تمہارے قدموں کے لمس کا منتظر بنا دیا۔ حبیب ِ زندگانی! تم بھی جانتے ہو، یہ کرامتیں کچھ بے سبب نہیں۔ مگر مجھ جو عجب بھنور نے آ گھیرا ہے۔ میں نے فاصلوں کو تو تسخیر کر لیا مگر مجھے تمہاری شکست سے خوف آنے لگا ہے۔ میں تمہیں فتح کر چکی ہوں مگر حاصل کی لذت سے کم سیراب ہوں۔ اگر میں تم کو پا لوں تو شاید تمہیں کھونے کا خوف مجھ سے محبت کی تاثیر چھین لے۔ میں تم کو حاصل کر بھی لوں تو مادیت مجھ پر غالب آجائے گی تم سے دور ہونے کی رائیگانی کا احساس مجھ سے یہ کرامتیں نوچ لے گا۔ فتح اور لا حاصل کی لذت اک برابر ہے تاکہ تسخر مادیت میں کبھی مبتلا نہ ہو۔ چوبیس نومبر ،پیر کی سرد رات اور رم جھم برستی بارش میں جونہی مؤذن نے صدا ئے اذان بلند کی ،کراچی کے ایک ہسپتال میں ایک ننھی سی کلکاری گونجی اور افضل النسا اور سید شاکر حسین زیدی کے ہاں ایک پری کا جنم ہوا جسے آج دنیا پروین شاکر کے نام سے جانتی ہے۔
بخت سے کوئی شکایت نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
جدید اردوشاعری کے اہم نام پروین شاکر کے فنی مقام سے تو لوگ آگاہ ہیں ہی،آج ہم ان کی ذاتی زندگی کے چند اوراق پر نظر ڈالتے ہیں۔ان کی بڑی بہن نسرین بانو اور پروین نے اپنا بچپن ایک ساتھ ہنستے کھیلتے گزارا۔دونوں اکٹھے سکول جایا کرتیں۔ پروین جب تیسری کلاس میں تھیں تو انہیں ڈبل پرموشن دیا گیا یوں دونوں بہنیں ایک ہی کلاس میں آگئیں۔ان کی ایک عادت یہ تھی کہ وہ کسی بھی محفل میں اپنے جوتے اتار دیا کرتیں اور ننگے پیر پھرا کرتیں ،واپسی پر اکثر ہی جوتے گم ہو جایا کرتے اور انہیں ننگے پیر گھر آنا پڑتا،وہ گاڑی بھی جوتا اتار کر چلایا کرتیں،ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ وہ اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں جوتوں کی دکان کے سامنے گاڑی روکے زورزور سے ہارن بجا رہی تھیں، شاپ سے سیلزمین باہر آیا تو پتا چلا کہ پروین شاکر ہیں اور ننگے پیر ہیں انہیں جوتا چاہیے،اصل میں وہ کسی تقریب میں اپنا جوتا کھو بیٹھی تھیں اور اب جہاں جانا تھا وہاں بغیر جوتے کے جا نہیں سکتی تھیں۔ان کے سفر میں جوتے کبھی آڑے نہیں آئے۔ کوئی چیز ان کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔ صرف 24برس کی عمر میں ان کا پہلا مجموعہ ’’ خوشبو‘‘ شائع ہوا۔جب وہ سی ایس ایس کا امتحان دے رہی تھیں تو جب اردو کا پیپر آیا تو اس پیپر میں پروین کی اپنی ہی شاعری پر سوال تھا۔پروین کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔یہ ان کی شہرت اور کامیابی کی پہلی سیڑھی تھی۔
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
انگلش لٹریچر اور لنگئٹکس میں ماسٹرز کے بعد پروین شاکر کچھ عرصہ انگلش کی لیکچرر رہیں پھر سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد کسٹم میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر تعینات ہوئیں۔
رات ابھی تنہائی کی پہلی دہلیز پہ ہے
اور میری جانب اپنے ہاتھ بڑھاتی ہے
سوچ رہی ہوں، ان کو تھاموںزینہ زینہ سناٹوں کے تہ خانوں میں اتروںیا اپنے کمرے میں ٹھہروں چاند مری کھڑکی پہ دستک دیتا ہے۔
سنہ 1976میں اُن کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی اور 1978ء میں ان کا بیٹا مراد علی پیدا ہوا۔پروین اپنے مراد کو آنے والی دنیا کا احمد ندیم قاسمی کہتی تھیں۔ 1987ءمیں شادی کے گیارہ سال بعد ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی اور ایک طویل اداسی اور ہجر پروین کی زندگی کا اثاثہ بن گیا۔
کوئی سوال کرے تو کیا کہوں اس سے
بچھڑنے والے سبب تو بتا جدائی کا
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
کون چاہے گا تمہیں میری طرح
اب کسی سے نہ محبت کرنا
پروین اسلام آباد میں سی بی آر کی سیکنڈ سیکریٹری مقرر ہوئیں ،اس کے بعد کسٹم میں ہی انسپکشن اور ٹریننگ کی ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات ہوئیں۔
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
چھبیس دسمبر پیر ہی کے روز آفس جاتے ہوئےاسلام آباد میں ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور کومل لہجے والی ہی شاعرہ صرف 42 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔انہیں اسلام آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔اُن کے کتبے پر یہ شعر درج ہیں:
مر بھی جاؤں تو کہاں ،لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے ،مرے ہونے کی گواہی دیں گے
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
بارش ہوئی تو پُھولوں کے تن چاک ہوگئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہوگئے
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بُلند و بالا شجر خاک ہوگئے
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس
سورج کی شہہ پہ تنکے بھی بےباک ہوگئے
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے رُخ بدلتے ہی تیراک ہوگئے
جب بھی غریبِ شہر سے کچھ گفتگو ہوئی
لہجے ہوائے شام کے نمناک ہوگئے

جواب دیں

Back to top button