
ملک کے پاکستان کے نامور صحافی و تجزیہ کار سیلم صافی اپنے ایک حالیہ کالم ” اور اب جنرل فیض حمید کی باری ” میں لکھتے ہوۓ کہتے ہیں کہ چئیر مین تحریک انصاف عمران خان سے میرا نظریاتی اختلاف موجود تھا لیکن 2014کے دھرنوں تک میرے اور عمران خان میں بات چیت اور گپ شپ کی حد تک راہ و رسم برقرار تھی۔ 2014 میں انہوں نے نظریاتی اختلاف کو ذاتی اختلاف میں بدل دیا ۔ سوشل میڈیا کے ذریعے میری اور میری مرحوم والدہ کی کردار کشی کروائی۔
اور یوں نہ صرف ہماری بات چیت بند ہو گئی بلکہ تعلقات میں تلخی بھی آ گئی۔ اقتدار سے محرومی اور انکے جیل جانے کے بعد میں اپنے دل سے تلخی نکالنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن قطع تعلق کی نوعیت بدستور قائم ہے۔ گزشتہ نو سال میں کئی لوگ مثلا ًپرویز خٹک، جہانگیر ترین، عون چودھری، نعیم الحق، ریحام خان، جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اور کئی دیگر لوگ کوشش کرتے رہے کہ میری اور عمران خان کی صلح کروا دیں لیکن میں کسی ایک کے کہنے پر بھی ان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہ ہوا۔ میرا موقف ایسی کوشش کرنے والے ہر مردو وعورت کے سامنے یہ رہتا کہ میں عمران خان سے صرف صحافی اور سیاستدان کا تعلق بحال کر سکتا ہوں اور اگر وہ انٹرویو دینا چاہیں تو اس کیلئے کسی تیسرے بندے یا ثالث کی بھی ضرورت نہیں۔ میں خود ان کے پاس چلا جائوں گا لیکن جہاں تک ذاتی دوستی اور چائے کھانے وغیرہ پر گپ شپ کیلئے بیٹھنے کا تعلق ہے تو وہ میں عمران خان کے ساتھ نہیں رکھنا چاہتا۔
ہر ایک سے معذرت کرتے ہوئے میں یہ دلیل دیا کرتا کہ میں عمران خان کے ساتھ ذاتی تعلق اس لئے بحال نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس کی صورت میں پھر تجزیہ یا تبصرہ کرتے وقت میری آنکھوں میں حیا آئے گی اور میں نہیں چاہتا کہ ان سے متعلق تبصرہ یا تجزیہ کرتے وقت میری راہ میں حیا حائل ہو۔ ایک اور دلیل میری یہ رہتی کہ میں اپنی ذات کو پڑنے والی تمام گالیوں یا برے سلوک سے درگزر کر سکتا ہوں لیکن اپنی عظیم ماں کو پڑنے والی گالیاں معاف نہیں کر سکتا۔