منشور سے عوام کا دل بہلا ئیں

احمد خان
سیاست اور جمہوریت کا عام وطیرہ تو یہ ہے کہ جیسے ہی عام انتخابات کا بگل بجتا ہے چھوٹی بڑ ی سیاسی جماعتیں چوکو ں اور چوراہوں کا رخ کر لیتی ہیں ، سیاسی جماعتوں کے امیدوار عوام سے ٹوٹے رابطوں کو پھر سے بحال کر نے میں کمال کے کرتب دکھلا نا شروع کر دیتے ہیں ، ہر سیاسی جماعت کا امیدوار اپنے حلقے میں عوام سے ربط ضبط کو تیز کر دیتا ہے کہیں شادی بیاہ کی تقریبات، کہیں جنازوں کہیں عوامی اوطاقوں میں جاکر عوام میں خود کو عوامی نما ئندہ ثابت کر نے کے لئے سیاسی چال ڈھال کا استعمال کرتا ہے، سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت عام انتخابات میں کامرانی کے لئے سیاسی حکمت عملی بنانے میں ذہن کھپاتی ہے ، جہاں جیت کے لئے ہر سیاسی جماعت سیاسی جو ڑ توڑ کے حربوں کو اپناتی ہے وہیں عرق ریزی سے عوامی امنگوں کو مد نظر رکھ کر اپنا منشور تیار کر کے عوام کے دلو ں کو لبھا نے کا ساماں کرتی ہے۔
جمہوریت میں عوام کو اپنی جانب راغب کر نے میں کسی بھی سیاسی جماعت کا منشور ایک اہم ہتھیار کا کردار ادا کرتا ہے ، جس سیاسی جماعت کا منشور عوامی امنگوں کا زیادہ تر جمان ہو تا ہے عوام اسی سیاسی جماعت کی جانب نہ صرف راغب ہوتے ہیں بلکہ عام انتخابات کے دن اپنا ووٹ بھی اسی سیاسی جماعت کے امید وار کے ڈبے میں ڈالتے ہیں۔
وطن عز یز میں لیکن سیاسی جماعتیں جماعتی منشور پر کچھ خاص توجہ مر تکز کر نے کی زحمت نہیں کرتیں، حالیہ سیاسی منظر نامے کو ہی دیکھ لیجیے ، بڑی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت عوام کو دلا ئل نظریات اور اپنے منشور کے ذریعے ہم نوا بنا نے کے بجا ئے محض ایک دوسرے کے ’’ کپڑ ے ‘‘ بیچ چوراہے دھو کر ان کے دلو ں کو گرمانے کی کو شش کر رہی ہیں ، بڑی چھو ٹی سیاسی جماعتیں بجا کہ عوامی سطح پر ’’ ہلچل ‘‘ پیدا کرنے کے لئے پر تولے نظر آرہی ہیں لیکن ہو کیا رہا ہے ، ماضی کے تلخ سیاسی تجر بات سے سیاسی جماعتوں نے شاید کچھ بھی نہیں سیکھا ، ہو نا تویہ چاہیے تھا کہ ایک دوسرے پر حملہ آور ہو نے کے بجا ئے سیاسی جماعتیں عوام میں اپنے منشور کا لہک لہک کر پر چار کرتیں، اپنے نظریات عوام کے دماغوں میں راسخ کر نے کے لئے ایڑ ی چوٹی کا زور لگا تیں ، ٹھو س دلائل سے عوام کی ہم دردی کو اپنے پلڑ ے میں ڈالنے کی سعی کر تیں ، ہو لیکن اس کے بر عکس رہا ہے، سیاسی نظریات اور جماعتی منشور کے بجا ئے کل تلک باہم شیر و شکر رہنے والی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ سنبھالے نظر آرہی ہیں۔
بڑی سیاسی جماعتیں جس طر ح سے ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری میں جلال دکھلا رہی ہیں ، آثار یہی ہیں کہ حالیہ عام انتخابات میں بھی ماضی کی طر ح سیاسی جماعتیں مخالفت برائے مخالفت اور مخاصمت کے قاعدے کو اپنا کر عوام کے دلو ں کو جیتنے کی سعی کریں گی ، ہماری سیاسی جماعتیں جماعتی منشور سے اس وجہ سے بھی راہ فرار اختیار کر نے کو صائب سمجھتی ہیں کیو نکہ اقتدار میں آنے کے بعد حکمراں جماعت سے عوام جماعتی منشور پر عمل در آمد کا مطالبہ کرتے ہیں سو عوام میں جڑ یں رکھنے والی سیاسی جماعتیں عمومی طور پر جماعتی منشور کے بھا ری پتھر کو ہاتھ لگانے سے دامن بچا نے میں ہی اپنی عافیت سمجھتی ہیں، اس تلخ سچ سے انکار ممکن نہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد ہماری سیاسی جماعتوں کی ترجیحات عوام کے مسائل کا حل نہیں بلکہ ذاتی مفادات کا حصول ہوا کرتا ہے سو اب تک نئی نویلی سیاسی جماعت آئی پی پی نے منشور کے نام پر چند ایک نکات عوام کے سامنے رکھے ہیں لیکن عوام اور عوامی خواہشات سے جڑے اس اہم تر مقابلے میں زیادہ تر سیاسی جماعتیں خاموش ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے لئے صائب مشور ہ یہی ہے کہ اِدھر اُدھر دیکھنے اور چور راستے تلا ش کر نے میں اپنا وقت ضائع کر نے کے بجا ئے ہر سیاسی جماعت عوامی خواہشات کے عین مطابق جماعتی منشور تیار کرکے عوام میں جا ئے ، جب تلک سیاسی جماعتیں عوامی طاقت کے بل پر اقتدار میں نہیں آئیں گی اس وقت تک ماضی کی طر ح چہرے تو بدلتے رہیں گے لیکن نہ تو گلے سڑے نظام میں عوامی نکتہ نگاہ سے بہتری آسکتی ہے نہ عوام کے سلگتے مسائل کے حل کی راہ نکل سکتی ہے ، جس طر ح سے ماضی میں جذباتی نعروں کے جال میں عوام ماموں بنتے رہے ۔
اگر آمدہ انتخابات کے معرکے میں بھی سیاسی جماعتوں کا چلن حسب سابق رہا، اس صورت احوال میں عوام ایک بار پھر ماموں بننے کے لئے تیار ہو جا ئیں ، گر عوام چاہتے ہیں کہ ان سے اب کے بار ’’ ہاتھ ‘‘ نہ ہو پھر عوام کو اپنی اپنی من پسند سیاسی جماعتوں سے منشور کا مطالبہ کر نا چاہیے ، محض جذباتی نعروں اور ذاتی پسند و ناپسند سے کسی کا کچھ بگڑتا ہے یا نہیں لیکن عوام کے اس طرز عمل سے عوام کا اپنا زیاں ضرور ہوتا ہے ، کسی کو شک کو ہو تو ماضی قریب کی ملکی سیاسی تاریخ نکال کر اس کا مطالعہ کر نے کی زحمت کر لے ۔