آج کے کالمملیحہ سید

خواتین کے خلاف جرائم

ملیحہ سید

یاد رکھیں، کسی بھی ترقّی یافتہ سماج کی پہچان جدید ترین رہائش گاہوں، گاڑیوں، ایکسرسائیز سے نہیں ہوتی، یعنی جدید ترین ٹیکنالوجی اور سہولیات نہیں بلکہ معاشرے، مُلک و قوم اپنی تعلیم و تربیت، تہذیب و تمدّن، وسیع النّظری، افکارو خیالات سے جانے پہچانے جاتے ہیں اور حقوق کی آزادی کی بنیاد پر ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔ پاکستان میں خواتین کے حوالے سے عدم تحفظ بہت واضح ہے اگرچہ اس حوالے سے کئی قوانین بھی بنائے گئے ہیں مگر کسی بھی قانون پر عمل درآمد نہیں ہوتا ، بدقسمتی سے ہمارا ملک زندہ لوگوں کے لئے مردہ قوانین کا قبرستان ہے ۔ چائلڈ میرج ہو یا غیرت کے نام پر قتل ، یہ صرف پاکستانی سماج کا ایشو نہیں ہے ۔
ویسے یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ آج اقوامِ عالم، بالخصوص مغرب ہمیں بطور قوم ’’Honor killing‘‘ یا غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے ہتک کا نشانہ بناتا ہے، لیکن وہی مغرب اپنا ماضی بھولے بیٹھا ہے ۔ واضح رہے کہ دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے قدیم رومن سلطنت میں آگسٹاس سیزر نے اخلاقی اقدار برقرار رکھنے کے لیے ایسا قانون متعارف کروایا تھا،جس میں مرد کو اپنی بیوی اور بچّوں کی جانوں پر مکمل اختیار حاصل تھا کہ اگر کوئی مرد سماجی دباؤ کے نتیجے میں غیرت کے نام پر قتل کرنے سے انکار کر دیتا، تو اسے بھی قتل کا حق دار سمجھا جاتا تھا۔
ایمرا انویسٹی گیشن ٹیم کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے دس ماہ کے دوران خواتین اور کمسن بچیوں و بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے 758 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ جینڈر کرائم سیل کے عملے کی سستی اور غفلت کے باعث 30 فیصد سے بھی کم ملزمان پکڑے جا سکے ۔خواتین سے جنسی درندگی کے 155کیس رپورٹ ہوئے۔ گینگ ریپ کے 7 واقعات جبکہ چھوٹی بچیوں سے جنسی درندگی کے 23 مقدمات درج ہوئے۔ جنسی درندگی کے حوالے سے سب زیادہ واقعات صدر ڈویژن میں ہوئے جو پہلے نمبر پر رہا۔خواتین سے جنسی درندگی کے 140 کیس رپورٹ ہوئے۔ گینگ ریپ کے 3 اور چھوٹی بچیوں سے 12 جنسی درندگی کے واقعات کے ساتھ کینٹ ڈویژن دوسرے نمبر پر رہا۔خواتین سے جنسی درندگی کے 130، گینگ ریپ کے 6 اور چھوٹی بچیوں سے 12 جنسی درندگی کے واقعات کے ساتھ ماڈل ٹاؤن ڈویژن تیسرے نمبر پر رہی۔خواتین سے جنسی درندگی کے96 اور گینگ ریپ کے 8 اور چھوٹی بچیوں سے جنسی درندگی کے 9 واقعات کے ساتھ سٹی ڈویژن چوتھے نمبر پر رہا۔خواتین سے جنسی درندگی کے 96 گینگ ریپ کے 4 چھوٹی بچیوں سے جنسی درندگی کے 11 واقعات کے ساتھ اقبال ٹاؤن ڈویژن پانچویں نمبر پر رہا ،خواتین سے جنسی درندگی کے 39 گینگ ریپ کے 3 چھوٹی بچیوں سے جنسی درندگی کے 3 واقعات کے ساتھ سول لائن ڈویژن چھٹے نمبر پر ہے۔خواتین اور چھوٹی بچیوں سے جنسی درندگی کے واقعات میں ملوث ملزمان کا بڑی تعداد میں نہ پکڑے جانا جینڈرکرائم سیل کے افسران کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔پاکستانی سماج میں چونکہ مذہب سے زیادہ سماجی اقدار خاص طور پر ایسی اقدار جن کی مذہب نے مذمت کی ہے، کو زیادہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان میں جائیداد کا حق سرفہرست ہے۔ خواتین کو اکثر جائیداد سے بے دخل کردیا جاتا ہے اور ان کو ان کا شرعی اور قانونی حق نہیں دیا جاتا۔ لیکن پاکستان کا آئین اس بارے میں بالکل واضح طور پر عورتوں کو ان کا جائیداد میں حق دیتا ہے۔پچھلے سال فروری میں پاکستان کی قومی اسمبلی اور ایوان بالا یعنی سینیٹ نے بھی جائیداد میں خواتین کے حق کے تحفظ کا بل منظور کر لیا تھا، جسے ‘انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2020 کہا جاتا ہے۔بل میں واضح طور پر کہا گیا کہ خواتین کو غیر قانونی اور جعل سازی کے ذریعے جائیداد کی ملکیت سے محروم کیا جاتا ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ خواتین کے جائیداد کی ملکیت کے حق کو تحفظ دیا جائے۔ تعزیرات پاکستان دفعہ 376 اور 375 کے مطابق ایسے شخص کو ریپ کا مرتکب کہا جائے گا اگر وہ کسی خاتون (یا بچی) سے اس کی مرضی کے بغیر زبردستی، قتل یا ضرر کا خوف دلا کر زنا بالجبر کرے۔ایسے میں عورت قانونی طور پر یہ حق رکھتی ہے کہ وہ اس مرد کے خلاف قانونی چارہ جوئی اختیار کرے۔ جس کے نتیجے میں مرد کوپاکستان کے قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔اس جرم کے مرتکب شخص کو سزائے موت یا کم سے کم 10 سال اور 25 سال قید کی سزا سنائی جائے گی جس کے ساتھ وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔
یاد رکھیں کہ دل پر لگنے والا گھاؤ جسمانی زخم سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہوتے ہیں ۔ آبروریزی ظلم ہے، اجتماعی زیادتی سفاکیت ہے،بچوں کے سامنے ریپ ناقابلِ تصور درندگی ہے ۔ موٹروے پر پیش آنے والے واقعے نے پورے ملک کو مشتعل کر دیا تھا۔پاکستان میں آبروریزی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ عالمی این جی او ہیومین رائٹس واچ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں اوسط ہر دو گھنٹوں میں ریپ کا ایک واقعہ پیش آتا ہے جبکہ ہر ایک گھنٹے میں ایک پاکستانی عورت اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے۔25 نومبر میں خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے نومبر کے آخری ہفتے میں یہ مہم چلائی جاتی ہے کہ خواتین پر ہونے والا ظلم و ستم تشدد ختم ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ 25 نومبر سے اگلے سولہ دن خواتین کے خلاف تشدد پر آگاہی کی مہم شروع کرتا ہے جس کا مقصد خواتین پر تشدد کو روکنا ہے اور خواتین کے حقوق کےحوالے سے آگاہی دینا ہے۔تاہم صرف عمارتوں پر اورنج لائٹس لگا دینے سےکچھ نہیں ہو گا۔اس کے لئے عملی اقدامات کرنا ہونگے۔عورتوں پر تشدد کی بہت سی اقسام ہی جن میں جسمانی تشدد،نفسیاتی استحصال، مالی تنگی ،گالی گلوچ کرنا ،ہراساں کرنا شامل ہے۔یہ تشدد شوہر ، سسرال ، خاندان والو ، جاننے والو اور اجنبیوں کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے۔گھریلو تشدد کو خاص طور پر پاکستان میں نظر کیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں خواتین کو چپ رہنے کے لئے کہا جاتا ہے اور بہت سارے مقدمات میں عورتیں خود بھی نہیں گھریلو تشدد رپورٹ کرتی کہ خاندان کی بدنامی ہو گی۔تشدد جب ہی رکے گا جب ہم اس پر بات کریں گے آواز اٹھائیں گے ، اس کو رپورٹ کریں گے۔خواتین یہ یاد رکھیں ان میں کوئی کمی نہیں جو ان پر تشدد ہوا ، کمی برائی اس شخص میں ہے جو تشدد کر رہا ہے، جو اللہ کے احکامات کی نفی کر رہا ہے ۔مردوں کو پدر شاہی اور صنفی امتیاز کی عادت ہوتی ہے اس لئے وہ عورتوں کو نفسیاتی جنسی جسمانی جذباتی اور مالی طور پر ٹھیس پہنچاتے ہیں۔کورونا کے دوران زیادہ ترلوگ گھروں میں رہے اس دوران خواتین پر تشدد مزید بڑھ گیا اس برائی کا خاتمہ کرنا ہوگا ، عورتوں پر تشدد کرنا مردانگی نہیں ایک مکروہ فعل ہے ۔تشدد کی شکار عورتوں کی مدد کریں اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں ۔صنفی مساوات کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔تشدد کا شکار صرف غریب عورت نہیں ہے اچھی خاصی امیر پڑھی لکھی عورتیں بھی گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ عورتوں کو ہمت کرکے آواز اٹھانا ہو گی اور حکومت اداروں اور معاشرے کو انکا ساتھ دینا ہوگا۔تشدد کا شکار عورت ٹوٹ جاتی ہے اسکا اعتماد ختم ہوجاتا ہے اس کو مختلف جسمانی اور ذہنی بیماریاں ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔تشدد کو روکیں اپنے گھر والوں سے بات کریں یہ غلط ہے اگر بات نہیں بنے تو اسکی اطلاع پولیس کو کریں۔ہزاروں کی تعداد میں رپورٹ ہونے والے کیسز میں ایک درجن کو بھی جنسی جرائم کی بنیاد پر سزائیں نہیں ہو پاتیں۔ جنسی جرائم کے مقدمات میں سزا کی شرح تین فیصد سے بھی کم ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست خواتین کے حوالے سے اختیار کیے گئے دہرے معیارات کی نفی کرے اور خواتین کے خلاف جرائم پر ایک بھرپور فریق کی حیثیت سے سامنے آئے کیونکہ جہاں سماجی خوف عورت کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے روکتا ہے تو عدالتی کارروائی اور نظام بھی اسے جرم کے خلاف لڑنے نہیں بلکہ سہنے یا چپ رہنے پر مجبور کرتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button