فلسطینی بچوں کا ہولوکاسٹ
سید جواد علی زیدی
بچوں کو دنیا بھر کے مذاہب میں امن اور معصومیت کا چہرہ سمجھتا جاتا ہے اور ان کے بنیادی حقوق کے لئے مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ جن میں سرفہرست یونائیٹڈ نیشنز (UN) کے مختلف پراجیکٹس شامل ہیں اور یونیسیف (UNICEF) ان تمام پر بازی لے جاتا ہے چونکہ یہ ادارہ ایکٹویزم کے لئے مشہور سیلبریٹیز کو اپنا سفیر چنتا ہے اور دنیا کے پسماندہ علاقوں میں بچوں کے حقوق کو اجاگر کرتا ہے۔ لیکن جب سے غزا میں جنگ چھڑی ہے نہ صرف انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں بلکہ سفاکیت اور بربریت کی ایسی رسم قائم کی گئی ہے جس کی شاید ہی انسانی تاریخ میں کوئی مثال ملتی ہو۔ اسرائیلی دہشت گرد فوج جو خود کو نہ صرف خطہ بلکہ پوری دنیا کی طاقت ور فوج ہونے کا دعویٰ کرتی ہوئی نظر آتی ہےاور اسی غرور میں کسی کو بھی اپنے برابر کا نہیں سمجھتی۔ ان کا تکبر خاک میں تب ملا جب وہ بچوں سے جنگ ہار گئی اور اب حالات یہ ہیں کہ وہ اس قدر خوف زدہ ہوگئی کہ نہتے بچوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ایک رپورٹ کے مطابق فلسطین میں اسرائیلی فوجی درندوں کے حملے سے 13ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جس میں بچوں کی تعداد 5500 ہے جو کل اموات کا 42 فیصد ہے ۔ حیرت اس بات کی ہے کہ اتنی ننھی جانوں کے گزر جانے کے باوجود اقوام عالم کا کلیجہ پھٹ کیوں نہ گیا؟ غزہ کے ہسپتالوں میں پہلی سانس کے ساتھ ہی آخری سانس تک کا سفر جب چند لمحوں میں طہ ہو گیا تو قیامت کیوں نہ ٹوٹ پڑی؟ مغربی اور اسرائیلی میڈیا کی حیوانیت اور ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ ان کے مطابق حماس نے اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کیا جس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پرخوفناک بمباری کی۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح دہرے رویے کا اظہار کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ حماس نے حملہ کرکے حماقت کی جس سے فلسطینیوں کونقصان پہنچا اور اپنی دہشتگردی کو دفاع کا لبادہ پہنا کر سفاکی کی تمام حدیں پار کر دیں۔ اگر کچھ دیر کے لئے یہ بات مان بھی لی جائے کہ یہ بین الاقوامی دفاع کا حق استعمال کیا گیا ہے تو ایسا لگتا ہے کے اس جنگ سے پہلے اسرائیل فلسطین پر قابض نہ تھا اور فلسطینی عوام کی زندگی بہت خوشگوار گزر رہی تھی، روزگار کے بہترین مواقع تھے، ہر طرف امن ہی امن تھا لوگ صبح اٹھتے ہی کام پر جاتے، نوجوانوں کے لئے بہترین یونیورسٹیوں کی سہولتیں موجود تھیں خاندان پھل پھول رہے تھے، آزادی رائے کا حق تھا، بیماروں اور بزرگوں کے لئے بہترین ہسپتالوں کی سہولت موجود تھی، جس میں انہیں عالمی دنیا کے سٹینڈرڈ کے مطابق علاج معالجے کی سہولیات مہیا کی جارہی تھی، لیکن حماس کے جنگی حملہ کے بعد تو جیسے سب تباہ ہو کر رہ گیا اور اب ہر جگہ صرف بربادی ہی بربادی اور ویران نظر آتا ہے۔ لیکن یہ محض افسانوی خیالات کے علاوہ کچھ بھی نہیں رواں برس جنگ کے آعاز سے پہلے اسرائیل غزہ پٹی میں 172 فلسطینیوں کو شہید کر چکا تھا جس میں شہید ہونے والوں میں اکثریت بچوں کی ہی تھی۔ اب یہاں پر ایک بات دودھ کی طرح صاف اور پانی کی طرح واضح ہوتی ہے کہ حماس کو نشانہ پر لے کر دراصل اسرائیلی کنٹرول مغربی میڈیا، اسرائیل کو ویٹو پاور دے رہا ہوتا ہے کہ وہ جو جب چاہے فلسطینی بستیوں پر بمباری کرے، خواتین کی عصمت دری کرے اور معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلے۔ اس کے خلاف میڈیا کی زبان بند رہے گی اور الٹا اسرائیلی حملوں کا احمقانہ جواز بنا کر دینا اور سوشل میڈیا پر اٹھنے والی آوازوں کو دبانا شامل ہے۔
اس تمام جھوٹے پراپیگنڈے کا ایک اثر یہ آرہا ہے کہ اسلام مخالف نیریٹو جنگل میں لگی آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔ اگر ہم نے چار ہزار فلسطینی بچوں کا قتل کیا تو یہ کافی نہیں، اوباما دور کے سابق مشیر مسلم مخالف نفرت انگیز گفتگو پر گرفتار ہوئے اور ساتھ ہی وائرل ویڈیو میں وہ دکاندار کو نفرت انگیز جملے کہتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے بھی ہیٹ کرائم اور اسلاموفوبیا بڑھ رہا تھا جو اس بات کی تصدیق ہے کہ پراپیگنڈے کے منفی اثرات تیزی سے معاشرے میں
سرائیت کر جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف غزہ بلکہ امریکہ میں بھی ننھی جان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ شکاگو کے علاقے میں 6 سالہ فلسطینی نژاد امریکی کو مسلمان ہونے کی وجہ سے 26 بار چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا۔ این جی او سیو دا چلڈرن کے مطابق غزہ میں ہر 10 منٹ میں ایک بچہ مر رہا ہے اگر ان اعدادو شمار پر غور کریں تو ہر گھنٹے میں 6 بچے اور ہر روز 72 بچے اسرائیلی بربریت کا شکار ہو رہے ہیں۔ادھر ایک اور سوال زہن میں گردش کر رہا ہے کہ جب تباہ شدہ عمارتوں اور ہسپتالوں (جن کو اسرائیلی دہشتگر دانہ فورس نے خصوصی طور پر نشانہ بنایا ) کا ملبا ہٹایا جائے گا تو کتنے بچوں کی لاشیں ان کی لاچار اور بد قسمت ماؤں کے سامنے آئیں گی ، جن کے پھول کو بری طرح ان کی آنکھوں کے سامنے کچل دیا گیا اور کتنے بھاری ہوتی ہیں ننھی لاشیں جن کا بوجھ باپ کے کندھوں پر ہوگا۔ اب تو جیسے فلسطین میں صرف قبروں کا شہر آباد ہے، لیکن میں کبھی کبھار سوچتا ہوں کے یہ کس مٹی سے بنی ہوئی قوم ہے جس کا ایمان اور عشق رسول اکرمﷺ اس قدر مضبوط ہے کہ یہ موت کو چومتے ہوئے گلے لگائے جارہے ہیں اور بنا کسی حمایت اور جنگی تربیت کے یہ مٹھی برابر لوگ جو اسلحہ میں بھی اسرائیل کے قریب سے نہیں گزرتے پھر بھی ان کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں اور اس کا اندازہ اسرائیل کی بوکھلاہٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔