میں تمہیں کیسے بتاؤں ؟
عثمان کھوکھر
خاور مانیکا کے انکشافات میں بھی سننا چاہتا ہوںلیکن مری سماعتوں میں فلسطین کے معصوم بچوں اور عورتوں کی چیخیں جم گئی ہیں گولیوں اور راکٹوں سے ان کے بکھرتے اعضاء ہزاروں میل دور بیٹھے میری آنکھوں کے لئے آتشیں پرکالے ہیں برب کعبہ میرے کانوں میں ساں ساں اور آنکھوں میں آتشیں جلن نے ہر منظر دھواں دھواں کر چھوڑا ہےکہیں سے کوئی پرسہ ، کوئی امید کوئی حوصلہ افزا بیان ہی آ جائے لیکن نہیں سب ضمیر فروش مفادات کے اپنے اپنے دائروں میں رینگتے مجھ سے تقاضہ کر رہے ہیں کہ میں ان کی شعبدہ بازیوں اور منافقت کوسیاست لکھوں اور کہوں ان کی طاقت کے سامنے جھکوں اور شروع دن سے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال ڈال کر حصول اقتدار کی حرص و تمع کو جمہوریت کا نام دوں۔ اور پھر انکے غیر جمہوری فیصلوں پر آہا واہ واہ کے نعرے لگائوںقارئین کرام میرے قلم کی تلخیاں اور بڑھتی ہیں جب چوک چوراہوں پہ کھڑے نوجوانوں کو ان عیاش آوارہ صفت خود ساختہ لیڈروں سیاسی جوکروں اور مسخروں کے گانے گاتےاور نعرے لگاتے دیکھتا ہوں۔اور یہ کم بخت سرخ چہروں کی شادابیوں میں انگلیوں کے اشاروں سے عجب غرور اور تمکنت میں ڈوبے دیہہ خدائوں کے لہجوں میں بولنے کے عادی کبھی عوام کے حقیقی دکھ درد یا احساس کو سمجھ نہیں پائے اور سچ کہوں تو حقیقت میں سمجھنا اور جاننا ہی نہیں چاہتے
!مجھے سمجھ نہیں آ رہی میں میں کس کی بات سنوں ، خاور مانیکا کی یا چودہ ہزار سے زائد شہید ہو جانے والے فلسطینیوں کی یا بلوچستان سے آئی ان عورتوں کی جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ وہ سہاگن کا سرخ جوڑا پہنیں یا بیوہ کی زندگی گذاریں حقیقت بات ہے کہ فلسطین کی عورتیں اور بچے آنکھوں میں آنسو لئے سوالی صورت بنے دیکھ رہی ہیں میں انکو کیسے بتاؤں مری ماں جو کل شہر فاتحہ خوانی کے لئے گئی تھی بیچ چوراہے اس کو روک کر اسکے کانوں میں سونے کی بالیاں چھینی نہیں گئ، نوچ لی گئی ہیں اور وہ میرے سامنے پھٹے لہو بہتے کانوں کی درد سے رو رہی ہے کاش تم جان سکوہم تم سے زیادہ مجبور، محکوم اور مظلوم ہیں کاش تم جان سکو مظلوم ، مظلوم کی مدد کیسے کر سکتا ہے اور ایسی بھی بات نہیں کہ ہمیں تمہارا دکھ یا احساس نہیں دیکھو ہم تمہارے لئے غزہ ملین مارچ نکال رہے ہیں تمہاری آواز اٹھا رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہمارا ملک کوئی عالمی سطح کا شاعر، مصنف، ادیب ،فنکار، کھلاڑی یا سیاستدان پیدا نہیں کر سکا جو عالمی سطح پر تمہاری آواز اٹھا سکے ؟میں تمہیں کیسے بتاؤں یہاں ایک نہیں سینکڑوں تھامس ایڈورڈ ہیں لیکن کوئی ایک صلاح الدین ایوبی نہیں میں تمہیں کیسے بتاؤں ان تھامس ایڈورڈ صفت کرداروں کے لئے کعبے کے دروازے کھلتے ہیں یہ ضمیر فروش کبھی خانہ خدا کی اندرونی دیواروں کو صاف کرتے ویڈیو بنواتے ہیں تو کبھی کعبہ کے دروازے کو اپنے ہاتھ سے کھولتے اور کبھی ننگے پاؤں مدینے کی گلیوں میں گھومتے ویڈیو بنواتے ہیں۔ میں تمہیں کیسے بتاؤں ان جھوٹوں میں سے ایک جھوٹے شیخ نے کہا تھا کہ میںنے کعبہ کی چھت پر چڑھ کر نماز پڑھی ہے میں تمہیں کیسے بتاؤں میرے بولنے پر پابندی ہے مجھے گولیوں سے اڑا دیا جاتا ہے قلم چھین لی جاتی ہے انگلیاں اور زبان کاٹ دی جاتی ہےلیکن میں بولنا چاہتا ہوں ان تھامس ایڈورڈ صفت ضمیر فروش کرداروں کے گریبان پکڑ کر جھنجھوڑنا چاہتا ہوں او ظالمو او ضمیر فروشوں کیا تمہیں معلوم نہیں مسلمانوں کے مسائل اور اجتماعی معاملات کا دفاع تمہاری انفرادی عبادت سے زیاد اہم ہے، تمہارا کام کعبہ کی دیواریں اسکے دروازے یا اس کی زمین پر ننگے پاؤں پھرنا پھرانا نہیں بلکے مسلمان کی جان مال اور عزت کی حفاظت کرنا ہے ۔وہ جو صلاح الدین ایوبی جو تم سے زیادہ پرہیزگار اور نیکو کار تھا اور اس کے دل میں کعبہ کی زیارت تم سے کہیں بڑھ کر تھی وہ مسلمانوں کے معاملات کے دفاع میں اپنی ساری زندگی میں کعبہ نہ دیکھ سکااس کی زندگی میں جب حجاج کرام پر حملہ ہوا تو اس نے تمام تر مشکلوں اور فتنوں کے باوجود صلیبیوں پر حملہ کیا اور انکے فتنوں کا جڑ سے خاتمہ کیا لیکن چاہ کر بھی حج نہ کر سکا وہ دین آشنا جانتا تھا کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا دفاع میری انفرادی عبادت سے اولین شے ہے، کوئی شک نہیں کسی بھی حکمران کو پرکھنے کا معیار یہ نہیں کہ وہ تہجد پڑھتا ہے یا اس کے لئے کعبے کا دروازہ کتنی بار کھلتا ہے؟بلکہ اسکا معیار یہ دیکھا جائے گا کہ اسنے اقتدار ملنے کے بعد مسائل اور معاملات کو کس طرح حل کیا اور چلایا ہےکیا اس نے ظالم کو لگام ڈالی ہے اور اس سے مظلوم کو تحفظ ملا ہے یا نہیں ، وسائل اور برابری کے لئے اس نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں صحت تعلیم اور دوسرے مسائل کے لئے اسکی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کیا تھے اور ہیں !اس کے برعکس کسی کو اقتدار ملا اور وہ عوام کے معاملات بگاڑتا جائے عدل اور انصاف نہ کرے اپنی عیاشیوںکے لئے ٹیکسوں کی بھرمار کردے، غریب سے آخری نوالہ تک چھین لے تحفظ نہ دےاور معصوم مسلمانوں پر ظلم و بربریت دیکھتے ہوئے آنکھیں پھیر لے اور الٹا حج یا عمرے یا تہجد کے نفلوں کی نیت باندھ بیٹھے میں تو کہوں گا وہ چاہے مسجد نبوی میں جا بیٹھے تو وہ خیر پر نہیں اس کے لیے اجر نہیں ۔
میں تمہیں کیسے بتاؤں مجھ اور مجھ جیسے عام انسانوں کا دل تمہارے دلوں کے ساتھ دھڑکتا ہے ہمیں فلسطین ہی نہیں یوکرین کی تڑپتی ماؤں اور ان نوجوانوں کا بھی اتنا ہی دکھ ہے جو آندھی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں اے مظلوم محکوم اور مجبور لوگوں میں تمہیں کیسے بتاؤں ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے وہ ملک جوکلمہ طیبہ کے نظریہ اور نظام کے نام پر وجود میں آیا تھا وہ ملک جسے خدا اور رسول اللہ کے احکامات پر چلنا تھا وہ آج سرمایہ دار اور جاگیر داروں کی نفسی خواہشات پر چل رہا ہے میں تمہیں کیسے بتاؤں اسلام تو درکنار یہاں اسلام پسندوں کے لئے زمین تنگ کر دی گئی ہے یہاں عورتوں کے حقوق چھین لئے گئے ہیں انکی وارثتوں کے بدلے انکو غیرت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے انکے حقوق چھین کر انکو مادر پدر آزادیوں کے پیچھے لگا دیا گیا ہے وہ نوجوان جو ملک و ملت کے مقدر کا ستارہ بن کر چمکنے تھے،انکو زہنی پستی اور معاشی تنگ دستیوں میں یوں الجھایا گیا ہے کہ وہ چمکنے سے پہلے ہی مثل شہاب ثاقب زمین بوس ہو رہے ہیں ۔اے فاسفورس بموں سے مرنے والو اے گولیوں اور ٹینکوں کےگولوں کی آوازوں سے روتے بچوں کو چپ کروانے والوتم اپنی جنگ خود لڑو ہم خاور مانیکا کے جنسی انکشافات سننے میں مگن ہیں تمہیں پتہ ہی نہیں ہمارے حکمران سیاست سیاست کھیل رہے ہیں وہ ہر روز ٹی وی پروگراموں میں بیٹھے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں میں تمہیں کیا بتاؤں یہ لڑائی یہ غصہ کیمرے کی آنکھ بند ہونے تک ہے انکا کوئی نظریہ نہیں یہ نظریہ مخالف بعد میں بغل گیر ہوتے ھیں، جیسے مدتوں بعد ماں جائے مل پڑیں۔۔ !ہماری قومی قوت کو گندی سیاست اور امت و ملت کے اتحاد کو یہ ملا ملوانے ، علامہ و افہامے ، یہ پگڑی اور کلہ بند شیخ جی گروہ در گروہ بانٹ رہے ہیں میں تمہیں کیسے بتاؤں مری ماں جو کل شہر فاتحہ خوانی کے لیے گئی تھی بیچ چوراہے اس کو روک کر اسکے کانوں میں سونے کی بالیاں چھینی نہیں گئ نوچ لی گئی ہیں اور وہ میرے سامنے پھٹے لہو بہتے کانوں کی درد سے رو رہی ہےکاش تم جان سکوہم تم سے زیادہ مجبور محکوم اور مظلوم ہیں کاش تم جان سکو مظلوم ، مظلوم کی مدد کیسے کر سکتا ہے۔