ہزاروں نوجوانوںکو مجرم بنانے کا عزم !

سید بدر سعید
طاقت اور اختیار انسان کو پاگل کر دیتا ہے ۔ کسی کی بھی زندگی تباہ کر دینے کا احساس فرعونیت کو جنم دیتا ہے ۔ نوجوان قوم کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن آئی جی پنجاب جس طرح اس مستقبل کو جرائم کی راہ پر دھکیل رہے ہیں وہ باعث تشویش ہے ۔ون ویلنگ ، رانگ وے اور لائسنس کے بغیر گاڑی یا موٹرسائیکل چلانا جرم ہے اور اس جرم کا جرمانہ متعین کیا گیا ہے ۔ یقیناً کوئی بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی حمایت نہیں کر سکتا لیکن اب جس طرح آئی جی پنجاب نے اس کو بنیاد بناکر نوجوانوں پر مقدمات درج کروانے کا سلسلہ شروع کیا ہے ، اس کو عام عوام میں انتہائی ناپسندیدگی سے دیکھتے ہوئے شدت کے ساتھ رد کیا جارہا ہے۔اب تک صرف لاہور ہی میں کم عمر ڈرائیونگ پر ساڑھے تین ہزار سے زائد بچو ں پر مقدمات درج کیے جا چکے ہیں جبکہ لائسنس پاس نہ ہونے پر بھی پنجاب پولیس نے ڈیڑھ ہزار افراد پر مقدمات درج کیے ہیں۔ شاید آئی جی پنجاب کو اس بات پر بھی فخر محسوس ہو رہا ہے کہ اب ان نوجوانو ں کو نہ تو سرکاری ملازمت مل سکے گی اور نہ ہی ویزہ ملے گا۔ پھر ایسے نوجوانوں کو ملٹی نیشنل کمپنیز سمیت دیگر پرائیویٹ اداروں میں بھی ملازمت ملنا مشکل ہو جائے گی، کیونکہ کرمینل ریکارڈ سسٹم میں ان کے ریکارڈ میں یہ ایف آئی آر ہمیشہ ظاہر ہو گی اور یہ مقدمہ ہر اس لمحہ ہر اچھی نوکری کے وقت ان کے ماتھے پر کلنک بن کر نظر آئے گا۔ جب انہیں ترقی و کامیابی کا سفر کرنا ہو گا ۔ آئی جی پنجاب کومبارک ہو کہ محض 9 دن میں وہ ہزاروں نوجوانوں کا مستقبل سیاہ کر چکے ہیں اور ان کی وجہ سے جانے کتنے نوجوان اب مزید تعلیم حاصل کرنے سے بھی باغی ہو جائیں کیونکہ ان کی ڈگریاں ان کے کسی کام کی نہیں رہیں ۔ اگلے روز لاہور کے مختلف تھانوں کا چکر لگایا ، ہر تھانے میں ایسے کم عمر لڑکوں کو بند کیا ہوا تھا جنہیں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر گرفتار کر کے لایا گیا تھا ۔ انہی حوالات میں عادی مجرم ، منشیات فروش اور چوری کے مقدمات میں پکڑے گئے ملزمان بھی موجود تھے ۔
کونسا مہذب معاشرہ اپنے بچوں کے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے ؟ اگر آپ نے یہ طے کر لیا تھا کہ ان نوجوانوں کے لئے ملازمت اور ترقی کے راستے بند کرنے ہیں تو کیا یہ بھی لازم تھا کہ انہیں عادی مجرموں کے ساتھ بند کیا جائے تاکہ یہ بچے جرائم کے راستے پر گامزن ہوں؟۔ حوالات کا ایک خوف ہوتا ہے جو انسان کو جرائم سے روکتا ہے۔ آئی جی پنجاب کو مبارک ہو کہ یہ خوف بھی ان کی مہربانیوں سے ختم ہو گیا ہے۔ ان نوجوانوں کو حوالات کی حقیقت معلوم ہو گئی ۔ یہ جرائم پیشہ افراد سے بھی مل چکے ہیں اور ممکن ہے کئی ایک نے رابطے بھی نکال لیے ہوں ، ترقی ، کامیابی اور ملازمتوں کے راستے بھی ان پر بندہو چکے ہیں ، یہ سکالر شپ بھی نہیں لے سکتے اور مہذب دنیا انہیں اس ریکارڈ کی وجہ سے سٹڈی اور جاب ویزا دیتے ہوئے بھی ہچکچائے گی ، کرایہ پر گھراور دکان بھی مشکل سے ملے گی ۔ یہ سب ان نوجوانوں کے ساتھ ہوا ہے جن کی اصلاح کی جا سکتی تھی۔
ہماری اعلیٰ ترین بیوروکریسی کے پاس بھی اگر مسائل کا ایسا ہی حل ہے تو پھر ان کی ذہانت اور لیاقت مشکوک ہو گئی ہے ۔ آپ چالان کی رقم بڑھا سکتے تھے، آپ والدین کو بلا کر شورٹی بانڈ لے سکتے تھے ، کئی اور طریقے ایسے تھے جن کی مدد سے قوانین پر عمل درآمد کروایا جا سکتا تھا لیکن آپ نے ہزاروں بچوں کا مستقبل تباہ کرنا زیادہ بہتر سمجھا ۔صرف اس ایک طرز فکر نے آئی جی پنجاب کے ان تمام کاموں پر پانی پھیر دیا جن کی وجہ سے سمجھا جاتا تھا کہ شاید آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور ایک حساس اور درد دل رکھنے والے آفیسر ہیں۔ اگر صوبے کا پولیس چیف ہی نوجوانوں کی ترقی و کامیابی کے راستے پر رکاوٹیں کھڑی کر کے انہیں جرائم کے راستے پر دھکیلنا باعث فخر سمجھتا ہو اور اگر پولیس چیف بچوں کو حوالات میں عادی مجرموں کے ساتھ بند کرنے کو اخلاقی اور قانونی طور پر درست سمجھتا ہو تو پھر کس کے پاس جا کر رونا رویا جائے ؟ انسانی حقوق کی تنظیموں کے لئے شاید یہ ایسا مسئلہ نہیں جس پر آواز اٹھائی جا سکے لیکن کیا پنجاب حکومت اور عدلیہ بھی اس سے لاعلم ہے ؟ ایک غلطی کو جرم کس طرح بنایا جا تا ہے اور پولیس کس طرح اپنی مرضی سے ایک معاملہ کو سنگین بناتے ہوئے شہریوں کو مختلف دفعات میں پھنساتی یا رشوت کا ریٹ بڑھاتی ہے اس کا اندازہ بھی اس عمل سے لگایا جا سکتا ہے ۔حوالات میں بند ہونے والے کتنے بچے نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوں گے اس کا اندازہ شاید آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو نہیں ہے ۔مجھے علم نہیں کہ ایم بی بی ایس کی ڈگری لینے کے بعد اگر پریکٹس نہ کی جائے تو کتنے عرصہ بعد ایک عام شخص وہ سب بھول جاتا ہے جو اس نے سیکھا ہو لیکن آئی جی پنجاب تو پولیس سروس میں طویل عرصہ ملازمت کرکے اس عہدے تک پہنچے تھے ۔ یہ درست ہے کہ جب انہیں تعینات کیا گیا تب ان کے مقابلے میں کئی سینئر افسران پنجاب میں موجود تھے جنہیں بائی پاس کیا گیا اور اس وقت کئی امیدیں ان سے وابستہ تھیں لیکن انہوں نے جاتے جاتے جس طرح پاکستان کے نوجوانوں کا بیڑہ غرق کرنا باعث اعزاز سمجھا اس پر یقیناً ان کے آخری وقت تک بہت سے بددعائیں ان کا تعاقب کرتی رہیں گی ۔
یہ ہزاروں نوجوان زندگی کے ہر مرحلہ پر یقیناً ان کے لیے ہاتھ اٹھائیں گے ۔ پنجاب حکومت اور اعلیٰ عدلیہ سے بھی گزارش ہے کہ اس صورت حال کا نوٹس لیں اور نوجوانوں کے روشن مستقبل کو سیاہ کرنے کے اس سلسلے کو روکا جائے۔ ان اقدامات کو ٹھیک کیا جائے اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل بنایا جائے۔ ٹریفک قوانین کی پابندی بہت ضروری ہے لیکن اس پابندی پر عمل درآمد کے لئے جرمانہ ، لائسنس کے حصول اور کینسلیشن سمیت کئی اقدامات کیے جاتے ہیں ۔ ہر جرم کی سزا پھانسی نہیں ہوتی ۔ اب تک جتنے بچوں کا مستقبل تباہ کر دیا گیا ہے اس کا کوئی حل نکالنا بہت ضروری ہے ۔ ہمیں بحیثیت قوم ان بچوں کو معمار بنانا ہے ۔ ان کی کونسلنگ کی جا سکتی ہے۔ خدارا انہیں مجرم نہ بنائیں ۔ آپ نے جرائم کنٹرول کرنے ہیں لیکن اب ایسے لگنے لگا ہے کہ جیسے ہزاروں نوجوانوں کو مجرم بنانے کا عزم کرلیاگیا ہے۔