نگران وزیر اعلیٰ اور پنجاب پولیس کے مسائل
عامررانا
سال 2023 ختم ہونے کو ہے اور اسی تیزی سے نگران حکومت کا وقت بھی آنے والے سال کے دوسرے مہینے ختم ہونے کا امکان ہے۔ ملک بھر میں قومی اور صوبائی حلقوں میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں طے کیے گئے شیڈول کے مطابق عام انتخابات کروائے جائیں گے، اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے باقاعدہ انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کر دیا گیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشاورت کا عمل بھی ہو چکا۔ پولیس اور دیگرسکیورٹی اداروں کی ذمہ داریاں اور پرپوزل فنڈز کی تقسیم سمیت اخراجات کا تخمینہ بھی دیا جا چکا ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن نقوی اور ان کی نگران کابینہ نے جس طریقہ اور جوان مردی سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا وہ یقیناً قابل تحسین ہیں ترقیاتی کاموں کی زیر التواء سکیموں اور پنجاب کے سرکاری اداروں کی حالت زار کو جس جانفشانی سے حل کرنے کی پوری ذمہ داری نگران حکومت نے ادا کی کہ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی کسی تجربہ کار عوامی نمائندوں نے اپنا کردار ادا کیا ہو اور کیوں نہ لگے، نگران وزیر اعلیٰ سید محسن نقوی پیشہ ور صحافی ہیں انکی نظر یقیناً پنجاب کے ان اداروں پر فوکس تھی جن کی ناکامیوں اور نااہلیوں پر ان کی قلم اور خبر ان کے عرصہ دراز سے چلنے والے پرنٹ اور الیکٹرونک ذرائع ابلاغ چلاتے تھے ،انہوں نے تعلیم اور صحت سے وابستہ اداروں سمیت زراعت، معدنیات، لینڈ مافیا اورامن و امان کی صورت حال کے ذمہ داروں کو انتہائی قریب سے دیکھا ہوا ہے اب جبکہ قومی انتخابات سر پر ہیں، ان کی تیزی شاید کسی اور بات کا پیش خیمہ ہیں مگر میں موجودہ صورت حال کو دیکھنے کے باوجود بھی ایک لفظ نہیں بول سکتا، مگر یہ بات ضرور کہوں گا کہ عوام اور سیاسی جماعتوں میں کوئی گہما گہمی کیوں نظر نہیں آرہی، بہرکیف نگران حکومت خصوصاً پنجاب کی نگران حکومت نے منوا لیا ہے کہ عوامی نمائندوں سے بہتر سیاست اور خدمت صحافی بھی خوب کر سکتے ہیں مگر یہاں ایک بات کرنا انتہائی ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک مدت سے خرابی اور نااہلی دکھانے والے اداروں میں بہتری لا ئی گئی ہے یا کہ بس دکھائی جا رہی ہے۔ کیونکہ صحت اور تعلیمی اداروں میں طے شدہ بجٹ کے مطابق کام آٹو موڈ پر چل رہا ہے مگر امن و امان کے حوالے سے پنجاب سندھ سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ سید محسن نقوی کی امن و امان فراہم کرنے والے شعبہ پولیس کی کوتاہیوں پر نظر کیوں نہیں پڑ رہی، کیا پنجاب پولیس کا طرز عمل بھی صحافی طرز پر ہے آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کی کارکردگی پنجاب پولیس کے ڈیجیٹل پیج پر نظر آنے والی ان کارکردگی کے باعث تسلی بخش تو قرار نہیں دی جارہی جہاں وہ ہزاروں درج ایف آئی آر میں سے ایک دو حل ہونے والے مقدمات میں گھنٹوں صرف کرکے دکھائی جانے والی پی ایس پیز کی ماڈلنگ اور ایکٹنگ سے مطمئن کیا جانا ہے ؟
اگر پنجاب پولیس اپنے آفیشل پولیس پیج کو ہی کارکردگی سمجھ رہی ہے تو جناب نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی پولیس کارکردگی کو بس ایک آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ۔خدارا وزیر اعلیٰ محسن نقوی جہاں دوسرے اداروں پر فوکس کررہے ہیں اور پوری ایمانداری اور ذمہ داری سے انہیں بہتر کر رہے ہیں، پنجاب پولیس کے روایتی اور بوسیدہ کلچر کو بھی درست کرنے کی زمہ داری انہی وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی ہے انہیں اب ذاتی دوستوں سے آگے بڑھ کر کام کرنا ہو گا۔ 13ارب سے زائد مالیت کا پولیس بجٹ لینے اور گاہے بگاہے کروڑوں کی گرانٹ سمیٹنے کے باوجود پنجاب پولیس گذشتہ سال کی نسبت گرائم گراف میں آگے ہے، ماتحت کو پٹرول اور کاسٹ آف انویسٹی گیشن کی مد سمیت پولیس ٹرینگ سکولوں اور لائنوں میں ویلفیئر کی مد میں ملنے والے بجٹ میں مبینہ لوٹ مار نے محکمہ پولیس کے کلچر کو بدلنے ہی نہیں دیا پولیس کارکردگی پر روزانہ انگلیاں اٹھ رہی ہیں کیا آئی جی پنجاب پولیس کی بھی سیاسی جماعتوں کی طرح( بات ہو گئی ہے)کیا اب پنجاب پولیس بھی ایک مقدس گائے بن گئی ہے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور یقیناً ایک رحم دل اور مٹی پائو پالیسی پر پیرا عمل ہیں مگر جہاں وہ اپنی سپاہ کے لئے محبت اور رحم دلی کا جذبہ رکھتے ہیں وہاں انہیں حوصلہ دینا مسائل کا حل تو ہرگز نہیں۔ آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کا حوصلہ اہلکاروں کے جہاں حوصلے بڑھا رہا ہے وہاں کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو بھی پروان چڑھا رہا ہے، ماتحت سپاہ درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے پولیس پالیسنگ کے برعکس مزید خرابی پیدا کر رہی ہے، آئی جی پنجاب پولیس کی ماتحت اور سپاہی کو دی گئی تھپکی عوام پر اثر تو نہیں کر رہی کیونکہ آج بھی سڑک کنارے وردی پہنے اہلکار کو کوئی کار سوار یا موٹر سائیکل والا لفٹ دینے کو تیار نہیں ہوتا وزیراعلیٰ پنجاب پولیس پالیسنگ کا مظاہرہ کسی بھی شہر کے ٹول پلازہ یا بس سٹاپوں پر کھڑے باوردی اہلکاروں کے لفٹ مانگنے کے دوران دیکھ سکتے ہیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ پولیس اس سال بھی رحم دل اور ذمہ دار افسران کے ہوتے ہوئے بھی کیا مقام رکھتی حالانکہ ہردوسرے شہری کی پولیس سے وابستگی رکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔
وزیراعلیٰ بننے کے بعد آپ کو تو بطور صحافی عوام اور پولیس کے درمیان دوریاں ختم کرنے کے بنیادی مسائل کو ختم کرنے کی کوشش کرنی تھی کیونکہ پولیس کے روایتی کلچر میں آج بھی آفیسر اور ماتحت کے درمیان ایک خلا ہے جو پر نہیں ہو رہی ماتحت آج بھی مالی اور ذہنی مسائل کا شکار ہے پٹرول سے لے کر راشن الاونس تک اور کاسٹ آف انویسٹی گیشن سے لے کر ملزمان تک رسائی تک محکمہ پولیس اخراجات نہیں کرتی جس کے سبب مدعی مقدمہ اور ملزمان سے بلیک میل کرکے خرچہ بٹورا جاتا ہے اور اس بلیک میلنگ میں پولیس رویہ سخت ہونے پر مسائل برقرار ہیں جو پنجاب پولیس کے سالانہ کرائم نمبر سے صاف نظر آتے ہیں کہ ہر پانچ منٹ میں ایک واردت اور مقدمہ درج ہورہا ہے اہلکاروں کی ڈیوٹی اور چھٹی کا مسئلہ بھی اسی طرح برقرار ہے ایس ایچ او لگنے کے لئے سفارش کلچر ختم کرنا ناممکن ہو چکا ہے دوسری جانب ضرورت تو اس امر کی تھی کہ پنجاب پولیس خصوصاً لاہور پولیس کی تعداد میں اضافہ کیا جاتا، نئے تھانے بنائے جاتے اڑھائی کروڑ کی آبادی کے شہر میں 24 ہزار کے قریب نفری ظلم نہیں تو کیا ہے۔ بینک، مسجد، چرچ ،بازار، تعلیمی ادارے، صحت گاہ سرکاری دفتر یہاں تک کہ ناکے، پٹرولنگ، چھاپے، ٹریفک کنٹرول، پنچایت، عدالت، تجاوزات، بجلی چوری، گراں فروشی افسران اور سیاست دانوں کے دروازے تک اہلکار کی ضرورت بنا دی گئی ہے ہڑتال ہو یا احتجاج اشتہاری ہو یا سیاسی جلسہ پروٹوکول ہو یا اہم شخصیات کی آمد پولیس نفری ہی درکار ہے۔ رحم دل آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کو چاہیے تھا کہ شفقت بھرا ہاتھ اہلکار کی کمر پر پھیر کر انہیں(شاہد جٹ)بنانے کی بجائے ان کا بوجھ ہلکا کرتے ہوئے مزید کندھے لاتے تاکہ ذمہ داریوں کو بد دلی ،گالیاں اور شکوے کی بجائے خوش دلی اور پیشہ وارانہ طرز پر ایک سپاہی ہونے جیسا فرض ادا کرے۔