فیکے کا احتجاج

محمد قاسم مغیرہ
فیکا ایک غریب شخص ہے۔ اس کے لئے دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے اس کا بھرکس نکال دیا ہے۔ اچھا لباس اس کے لئے بس ایک خواب بن کے رہ گیا ہے۔ پست ترین معیار زندگی پر سمجھوتہ کرنے کے باوجود اس کے لئے زندگی بسر کرنا مشکل ہے۔ بچوں کی خواہشوں کا گلا گھونٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ بیوی کو ایک جوڑا خرید کر دینے سے قاصر ہے۔ سردی کی آمد آمد ہے۔ موسم کی یخ بستگی سے نمٹنے کے لئے گرم کپڑے خریدنا اس کی بساط سے باہر ہے۔ سہولیات اور تعیشات تو درکنار، اس کے لئے ضروریات زندگی بھی ناممکن الحصول ہوئی جاتی ہیں۔ فیکا اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کا خواہش مند ہے لیکن حالات کی چکی نے اسے پیس کر رکھ دیا ہے۔ اپنے خوابوں کا شیرازہ بکھرتے دیکھ کر اس نے ایک روز فیصلہ کیا کہ امیران شہر کے دروازے پر دستک دے گا اور اپنی مفلسی کے اسباب دریافت کرے گا۔
فیکا اشرافیہ کی ایک بستی میں پہنچا۔ سیاہ رنگ کا ایک بڑا سا گیٹ نظر آیا۔ دروازے پر سنتری کھڑا تھا۔ فیکے کی بار بار درخواست پر بھی اسے گھر میں داخل ہونے کا اذن نہ ملا تو فیکا دروازے پر ہی بیٹھ گیا کہ جب صاحب باہر نکلیں گے تو ان سے سوال ضرور کرے گا۔ کچھ ہی وقت میں ٹریک سوٹ میں ملبوس ایک صاحب شام کی سیر کے لئے باہر نکلے۔ فیکے نے انہیں مخاطب کرکے وہی سوال، جو اس نے سوچ رکھا تھا، داغ دیا۔ صاحب کی جبیں پر ہلکی سی شکن پڑی۔ چند ثانیوں بعد گویا ہوئے:
دیکھو فیکے! میں اپنا پیشہ وارانہ کردار بہ طریق احسن نبھارہا ہوں۔ تم میری حیثیت پر سوال نہیں اٹھا سکتے۔ کاکول، کوئٹہ اور سینڈہرسٹ سمیت ہر اچھے ادارے سے میں نے تربیت پائی ہے۔ کون سا میدان ہے جہاں میں نے داد شجاعت نہیں دی۔ میرے پاس اعزازی شمشیر بھی ہے۔ فیکے تمہاری معلومات درست نہیں ہیں۔ بہتر ہوگا کہ دوسرے علاقوں میں بھی گھوم پھر لو۔ شاید تمہاری غربت کا کوئی مداوا ہوسکے۔ فیکے کو بات بھلی معلوم ہوئی۔ اسباب غربت پر مزید تحقیق کے لئے ایک دوسری بستی کی جانب بڑھا۔ بستی میں ایک بڑے آدمی کے استقبال کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ فیکا چلتے چلتے ایک ڈیرے پر پہنچا۔ وہاں بڑی بڑی چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ فیکے کو ایک چارپائی پر جگہ مل گئی۔ فیکا اپنے ذہن میں خیالات کے تانے بانے بن رہا تھا کہ پانچ لینڈ کروزرز ڈیرے میں داخل ہوئیں۔ ایک گاڑی سے مائع لگی سفید کاٹن میں ملبوس ایک صاحب گاڑی سے اترے۔ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ ڈیرے میں بیٹھے لوگوں نے نعرے بازی شروع کردی۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ کچھ دیر بعد جب شور تھم گیا تو فیکے نے اسباب غربت والا سوال داغ دیا۔ صاحب نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بہ ظاہر فیکے کی بات انہماک سے سنی۔ پھر فرمایا :
تمہارا سوال میں نے سن لیا ہے۔ دیکھو فیکے میں نے جیلیں کاٹی ہیں۔ کوڑے کھائے ہیں۔ جمہوریت کے لئے قربانیاں دی ہیں۔آئین کی بالادستی کی جنگ لڑی ہے۔ فیکے تم جانتے ہو نا کہ ترقی جمہوری عمل کے تسلسل کی متقاضی ہے۔ اور یہاں تو ہمیں حکومت ہی نہیں کرنے دی گئی۔ یہاں بدعنوانی تو سبھی کرتے ہیں لیکن احتساب صرف ہمارا ہوتا ہے۔ گالیاں بھی ہمیں پڑتی ہیں۔ ہمارے کام میں عدالتیں بھی مداخلت کرتی ہیں۔ ہمارا میڈیا ٹرائل بھی ہوتا ہے۔ تمہارے حالات کا مجھے بہ خوبی علم ہے۔ تمہاری بات قائد محترم تک پہنچا دوں گا۔ وہ جب دو تہائی اکثریت لے کر آئیں گے تو تمہارے درد کا درماں کریں گے۔
فیکا تیسری بستی میں داخل ہوا۔ بلند و بالا فصیلوں میں گھرے ہوئے ایک وسیع و عریض گھر میں داخل ہونے کی جسارت کی تو صاحب کے محافظ نے بتایا کہ اس وقت ملاقات ممکن نہیں۔ کل دفتر میں مل لینا۔ فیکا صبح سویرے دفتر جا پہنچا۔ طویل انتظار کے بعد بالآخر اسے صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوگیا۔ صاحب نے فیکے بات سنتے ہوئے خصوصی اہتمام کیا کہ گردن تنی رہے۔ اس میں خم نہ آئے۔ فیکے کی بات سننے کے بعد صاحب نے اظہار کبر کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے فرمایا
دیکھو فیکے! بات کرنا بہت آسان ہے لیکن یہاں تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ تمہیں علم نہیں کہ مقابلے کے امتحان میں کام یابی حاصل کرنا کس قدر مشکل کام ہے۔ انگریزی زبان پہ مہارت، فلسفے میں عمق، تاریخ کے سمندر میں غواصی،سائنس میں ید طولی، حالات حاضرہ پر گہری نظر۔ یہ تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد میں یہاں تک پہنچا ہوں۔ ہمارے کام میں سیاسی مداخلت نہ ہو تو ہم بہت اچھا ڈیلیور کرسکتے ہیں۔ اور یہ جو تم نے میری تنخواہ پر سوال اٹھایا ہے اس کا جواب یہ ہے اس سے تو صرف کچن چلتا ہے۔ ہمارے طرز زندگی کے بارے میں بہت فسانے تراشے گئے ہیں۔
صاحب سے ملاقات کے بعد فیکا ایک اور بستی میں داخل ہوا۔ حسن اتفاق سے جلد ہی ملاقات ہوگئی۔ فیکے نے وہی غربت کے اسباب والا سوال چھیڑ دیا۔ فیکا ہمہ تن گوش تھا کہ صاحب کی گفت گو سے دانش و بینش کے موتی چنے۔ چند لمحوں بعد صاحب نے بتایا
ہم نے محدود وسائل کے باوجود بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ تمہارے سوال کا تعلق میری ذمہ داریوں سے ہرگز نہیں ہے۔ ہم ایک قانونی ضابطے میں کام کرنے کے پابند ہیں۔ آئین سے رہنمائی لیتے ہیں۔ ہمارا موازنہ ماضی کی عدالتوں سے نہ کیا جائے۔ ہم نے تو سسٹم بچانے کی غرض سے آمروں کا ساتھ دینے بھی گریز نہیں کیا لیکن تم سوال اٹھاتے ہو ہماری مراعات اور گاڑیوں پر۔ اگر تمام چاہتے ہو کہ تمہاری باتیں سنی جائیں تو سیاست میں حصہ لو۔ اسمبلی میں پہنچو اور قوانین بناؤ۔ تبھی ہم کچھ کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ ساری خرابی کی جڑ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی ہے۔ ہم کسی سے بھی نہیں ڈرتے۔ ہمارے لئے آئین سب سے مقدم ہے البتہ کبھی کبھار کسی استثنائی معاملے میں آمریت کا ساتھ دینا اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ خیر چھوڑو۔ تمہیں قانونی پیچیدگیوں کا علم نہیں ہے۔
فیکا دو دن کے مشکل سفر کی وجہ سے تھک چکا تھا۔ فیکے نے جان لیا کہ وہ اب تک جتنے لوگوں سے ملا ہے، سب دودھ کے دھلے ہیں، کسی پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔
اچانک فیکے نے گریبان چاک کرلیا اور ڈاکٹر امجد ثاقب کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔